• اصحاب بدر

غزوہ بدر : نصرت الہٰی کا عظیم مظہر

غزوۂ بدر: نصرتِ الہٰی کا عظیم مظہرۣ

تحقیق وترتیب : مفتی محمد لقمان رضا

رمضان المبارک کا سترہواں دن ،اسلامی تاریخ کا نہایت ہی اہم دن ہے ۔اس دن جو واقعہ پیش آیا ، اس کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ہرسال اِس مہینہ میں اس کو ضرور بیان کیااور سنا جائے یعنی واقعہ ’غزوۂ بدر‘ جو روزے کی فرضیت کے بعد پہلے ہی رمضان کی سترہ تاریخ 2ہجری جمعۃ المبارک کے دن پیش آیا ۔ قرآن کریم نے جن واقعات کواپنے اوراق میں محفوظ کیا ہے ، ان میں سے یہ بھی ہے تاکہ قیامت تک مسلمانوں کے ذہن میں اس کی یاد تازہ رہے ۔
’بدر‘ایک کنوئیں کا نام ہے ،جومدینہ منورہ سے تقریباً اسی میل کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ یہ کنواں چونکہ بہت مشہور تھا اِس لیے اس کے آس پاس کی آبادی ،دیہات کو ہی’ بدر ‘کہا جاتا تھا ۔خوش عقیدہ مسلمان مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے ’ بدر ‘ بھی حاضر ہوتے کہ یہ باعث ثواب ہے اور امت مسلمہ پر ان شہید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حق جنھوں نے اسلام کی حفاظت وبقا کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔
اللہ تعالیٰ نے اِسی میدان میں مسلمانوں کی مدد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا : ’’ حالانکہ تم بے سروسامان تھے ‘‘ گویا قرآن مجید یہ بتانا چاہتا ہے کہ کسی بھی میدان میں فتح وکامیابی کا ذریعہ خدا کی مدد ہے ۔ انسانوں کی اپنی ظاہری اور مادی قوت وطاقت نہیں ۔ دیکھئے ،اس دن جب کہ مسلمان خدا کے دین کی حفاظت کے لیے دشمن کے مقابل کھڑے تھے تو ہر ظاہری اعتبار سے کمزور تھے ،تعداد میں صرف تین سو تیرہ تھے جب کہ دشمن سینکڑوں میں نفری رکھتا تھا ، سواری کے لیے صرف ستر اونٹ اور دوگھوڑے ، چھ زرہ ،آٹھ تلواریں تھیں جب کہ دشمن کے پاس سوگھوڑے ، سات سو اونٹ بکثرت زرہ اور دوسرے ہتھیار تھے ۔پس اگر انسان کا بنایا ہوا یہ اصول صحیح ہو کہ غلبہ مادی قوت وطاقت ہی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے تو غزوۂ بدر میں فتح کافروںکو ہونا چاہیے ، لیکن خدائے وحدۂ لاشریک نے غزوۂ بدرمیں کمزورمسلمانوںپر کرم فرما کر اُن کی مدد کرکے قیامت تک کے مسلمانوں کو یہ بات تسلیم کرلینے کی عملی دعوت دے کہ کامیابی وکامرانی ،خدا ہی کی مدد سے نصیب ہوتی ہے صرف تم خود کو اس قابل بنا لو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’ اور نہ ہمت ہارو اور نہ غم کرو ، تم ہی بلند ہوگے ، اگر تم سچے مومن ہو ‘‘ ( سورہ آل عمران: 139)
یعنی مومن کامل ہونا ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامیابی وکامرانی کی ضمانت ہے ،غزوہ ٔ بدر میں شریک ہونے والے وہ مومن کامل تھے ،جو خدا کی مدد کے مقابلے کی ہرقوت کوکمزور وخوار یقین کرتے تھے ۔لہٰذا رب العالمین نے اپنے ان کمزور بندوں کی مدد اور خوب کی ، اِس طرح کہ :’’ جب تمہارا مقابلہ ہوا ، تو اللہ نے کافروں کا لشکر تمہاری نظروں میں کم کردیا اور تمہیں کم کردیا ،کافروں کی نظروں میں ‘‘ ( سورہ انفال :44)
پہلی مدد اِس طرح ہوئی کہ مسلمانوں کوکافروں کی تعداد ، میدان جنگ میں کم نظرآرہی تھی تاکہ اللہ کے یہ بندے دشمن کو دیکھ کر گھبرائیں نہیں اورکافروں کو مسلمان کم دکھائے گئے تاکہ وہ مسلمانوں سے ڈر کر میدان جنگ چھوڑ نہ جائیں کیوں کہ حق وباطل کا فرق ظاہر کرنے کے لیے اِس جنگ کا ہونا ضروری تھا۔
دوسری مدد یہ کہ جنگ کے دوران بعض اوقات کافروں کو مسلمان اپنے سے دوگنے نظر آئے تھے جس کی وجہ سے اُن پر مسلمانوں کا ڈراور خوف طاری ہوتا رہا اور اُن کی ہمتیں پست ہوتی گئیں۔( سورہ آل عمران:13)
تیسری مدد کا ذکر اُن آیات میں ہے :’’ جب تم فریاد کر رہے تھے ، اپنے رب سے تو اُس نے تمہاری فریاد قبول کی اور فرمایا کہ میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کرنے والا ہوں جو پے درپے آنے والے ہیں ‘‘( سورہ انفال :9) 
میدان بدر میں جنگ کی رات سب سوتے رہے لیکن کائنات کے آقا ﷺ اللہ سے اسلام کے اِن سپاہیوں کے لیے فتح وکامرانی کی دعا کرتے رہے ، صبح مسلمانوں کی صفوں کو درست کیا ،جنگ کی تیاریاں مکمل ہوئیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے محبوب معبودِ حقیقی کے سامنے ہاتھ پھیلائے اورعرض کیا:’’ اے اللہ ! اب تیری اُس مدد کے ملنے کا وقت آگیا ہے جس کا تونے مجھ سے وعدہ فرمایاہے ۔ اے اللہ ! اگر مسلمانوں کی اس چھوٹی سی جماعت کو تو نے ہلاک ہوجانے دیا تو پھر تیری بھی عبادت نہ کی جائے گی ‘‘
امت کے مونس وغمگسار آقا کریم ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور آپ نے رب کی اجازت سے غلاموں کو خوشخبری سناتے ہوئے فرمایا : گھبراؤ نہیں آگے بڑھو ،اللہ کے ایک ہزار فرشتے تمہاری مدد کے لیے آرہے ہیں ۔ اب کیا تھا ،مسلمانوں نے پوری ہمت وجرأت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ شروع کردیا لیکن جنگ کے دوران ہی دشمن کی طرف سے یہ خبر مشہور ہوئی کہ کافروں کی مدد کے لیے ایک بھاری لشکر پہنچے والا ہے ،اِس خبر سے مسلمانوںکو کچھ تشویش ہوئی تو پھر نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق غلاموںکو مژدہ سنایا : ’’ جب آپ فرما رہے تھے مسلمانوں سے کیا تمہیں کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے ،تین ہزار فرشتوں سے جواُتارے گئے ہیں ۔ ہاں کافی ہے اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور اگر کافرتم پر ایک دم مل کر حملہ کریں تو پھر تمہارا رب پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا ،جو شان والے ہیں ۔‘‘ 
یہ تیسری مدد کی تفصیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی دعا کو قبول فرمایا اور اسلام کے سپاہیوں کی حسب ِ ضرورت ، ہزار، تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتوں سے مدد کا وعدہ کیا اور جب جنگ پورے زور پر آئی تو ان فرشتوں نے اپنا کام پورا کیا کہ تلوار لگنے سے پہلے سرکٹتے نظر آئے ،کچھ کافروں کے منہ اور ناک پرکوڑوں پر نشان نظر آرہے تھے اور یہی فرشتوںکو اللہ تعالیٰ کا حکم تھا۔( سورۂ انفال:12)
غورکیجئے! کیسی زبردست مدد ہے ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ دشمن پر مار پڑرہی ہے اور اُسے مارنے والا نظر نہیںآتا۔اسی طرح وہ قوت وقدرت والا اپنے مومن بندوں کی مدد کرتا ہے ۔
آج سترہ رمضان المبارک ہے ، اس دن اہل بدر کو نذرانۂ عقیدت ومحبت پیش کرنے کے لیے قرآن خوانی ، فاتحہ اورکسی بھی طرح ایصال ثواب کا انتظام کیجئے اور رب سے دعا کیجئے کہ اے مولیٰ ! ہم بھی آج تیرے دشمنوں کے مقابلے میں کمزور ہیں ، ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے تجھ سے اہل بدر کی نام کی بھیک مانگتے ہیں اور تیری مدد طلب کرتے ہیں ،مولا اہل بدر کے صدقہ میںہماری مدد فرما کہ ہم ذلت وخواری سے محفوظ رہیں ۔آمین