امیر المؤمنین ، خلیفۃ المسلمین ، شہنشاہِ ولایت
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم
تحقیق وترتیب : مفتی محمد رمضان جامی
مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی کعبہ میں ولادت کے بارے میں امام المحدثین حاکم نیشاپوری (م۴۰۵ھ) اپنی تحقیق یوں بیان کرتے ہیں:’’متواتر روایات سے ثابت ہے کہ(سیدہ) فاطمہ بنت اسد (رضی اللہ عنہا) نے امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو کعبہ کے اندر جنم دیا‘‘۔(المستدرک )امام ذہبی نے بھی حاکم کی اس تحقیق کو برقرار رکھا۔(تلخیص المستدرک)شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی حاکم کے اس فیصلہ کن بیان کو نقل کیا ہے۔( ازالۃ الخفائِ)عالم عرب کے معروف مصنف عباس محمود عقاد رقم طراز ہیں:’’سیدنا علی (کرم اللہ وجہہ) کعبہ میں پیدا ہوئے‘‘( العبقریۃ الامام علی )
تاریخ ولادت:
آپ کی ولادت باسعادت بعثت نبوی سے دس سال پہلے رجب المرجب کے مہینے میں ہوئی، علامہ مومن شبلنجی لکھتے ہیں:’’آپ بیت اللہ شریف کے اندر جمعہ کے دن، ۱۳؍ رجب شریف، ۳۰ عام الفیل (چھٹی صدی عیسوی)، ہجرت نبوی سے تیئیس یا پچیس سال اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اظہارِ نبوت سے دس یا بارہ سال قبل پیدا ہوئے، آپ سے پہلے کسی شخص کو کعبہ میں پیدا ہونے کی سعادت نہیں ملی‘‘(نور الابصار)
گھٹی:
سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادت ہوئی تو آپ کی والدہ سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہانے آپ کو حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا، آپ ﷺ نے اس نومولود کو ’’علی‘‘ کے نام سے موسوم فرمایا اور اپنے لعاب دہن کی گھٹی سے نوازا،سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:’’جب میرے اس بچے کی ولادت ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام ’’علی‘‘ رکھا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور اپنی زبان مبارک نومولود کے منہ میں ڈالی، جسے چوستے چوستے وہ سو گیا‘‘( السیرۃ النبویۃ)
کفالت و تربیت:
سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام تھا کہ انہیں بچپن ہی سے رحمۃً للعالمین ﷺ کی آغوش رحمت و شفقت میں پرورش اور تربیت کی سعادت میسر آئی، اس کا ظاہری سبب یوں بنا کہ قریش قحط سالی کی وجہ سے سخت تنگ دستی کا شکار تھے،جناب ابوطالب چوں کہ کثیر العیال تھے، ظاہر ہے انہیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، رسول اللہ ﷺ نے اپنے دوسرے چچا جان سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو، جو خوش حال تھے، مشورہ دیا کہ ہمیں جناب ابوطالب (سے تربیت وخدمت کی ذمہ داری کا)بوجھ ہلکا کرنا چاہیے۔ چناں چہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا جعفر اور رسول کریم ﷺ نے سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی کفالت اپنے ذمہ لے لی۔(سیرۃ النبویہ ، لابن ہشام)یوں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو اپنے بچپن سے لے کر حضوراکرم ﷺ کے وصال تک کم و بیش تیس سال کا عرصہ حضور ﷺ کی خدمت و معیت میں رہنے کا شرف نصیب ہوا۔
سیدنا علی المرتضیٰ اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے باہمی تعلقات:
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چوتھے خلیفہ برحق ہیں، پہلے تینوں خلفائِ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ آپ کرم اللہ وجہہ کے نہایت اچھے مراسم تھے، آپ نے ان کی خلافت کو نہ صرف یہ کہ صدق دل سے تسلیم کیا، بلکہ ہر قدم اور ہر موڑ پر بھرپورعملی معاونت فرمائی اور انہیں اپنے قیمتی مشوروں سے مستفید کرتے رہے۔
اس سلسلے میں بعض لوگ افراط و تفریط کا شکار بھی ہیں، مگر سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے اقوال و فرمودات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہی حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ صحابہ کرام خصوصاً خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم آپس میں شیر و شکر اور باہم رفیق و معاون تھے۔
یہاں بطور نمونہ افضل البشر بعد الانبیاء سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور وصی رسول ،شیرخدا سیدناعلی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے باہمی ادب و احترام اور محبت و مودت پر مبنی ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے:’’ایک دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کاشانۂ نبوی میں حاضری کے لیے آئے، سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا، دروازہ پر آپ دستک دیجیے، سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا، آپ آگے بڑھیے، سیدنا مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے کہا:’’میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھ سکتا، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میں نے یہ فرماتے سنا:’’کسی شخص پر سورج طلوع و غروب نہ ہو گا، جو میرے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل ہو (یعنی میرے بعد سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں)
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:’’میں ایسے شخص سے آگے بڑھنے کی جرأت کیسے کر سکتا ہوں، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’میں نے سب سے بہتر عورت کو سب سے بہتر شخص کے نکاح میں دیا‘‘
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے کہا:’’میں ایسے شخص سے کیسے آگے بڑھوں، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ہو:’’جو شخص ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے سینہ مبارک کی زیارت کرنا چاہے، وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سینہ کو دیکھ لے‘‘
سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:’’میں بھلا آپ سے کیسے تقدم کروں، جن کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان گرامی سنا ہو:’’جو شخص سیدنا آدم علیہ السلام کا سینہ مبارک، سیدنایوسف علیہ السلام اور ان کا حسن و جمال، سیدناموسیٰ علیہ السلام اور ان کی نماز، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے زہد و تقویٰ اور سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلق عظیم کو دیکھنا چاہے وہ علی المرتضیٰ علیہ السلام کو دیکھ لے‘‘
سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا:’’میں ایسی شخصیت سے پیش قدمی کی جرأت کیسے کروں، جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرمائیں:’’جب میدان محشر میں حسرت و ندامت (یعنی قیامت) کے روز تمام لوگ جمع ہوں گے، ایک منادی حق تعالیٰ عزوجل کی جانب سے ندا کرے گا، اے ابوبکر! تم اپنے محبوب کی معیت میں جنت میں داخل ہو جائو‘‘
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:’’مجھے ایسے شخص سے تقدم کی ہمت کیسے ہو سکتی ہے، جس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر اور حنین کے موقع پر، جب آپ کی خدمت میں دودھ اور کھجور کا ہدیہ پیش کیا گیا، تو فرمایا:’’یہ ہدیہ طالب و غالب کی طرف سے علی بن ابی طالب کے لیے ہے‘‘
سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے کہا:’’میں آپ سے کیوں کر آگے بڑھوں، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے لیے یہ فرمایا ہو:’’ابوبکر! تم میری آنکھ ہو‘‘
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:’’میں ایسی شخصیت سے کیوں کر آگے بڑھوں، جس کے بارے میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’روز قیامت علی جنتی سواری پر آئیں گے، تو کوئی ندا کرنے والا ندا کرے گا:’’اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! دنیا میں آپ کے ایک بہت اچھے والد، ایک بہت اچھے بھائی تھے، والد ابراہیم خلیل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بھائی علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ ‘‘
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے کہا:’’میں ایسی شخصیت پر کیسے فوقیت حاصل کر سکتا ہوں، جن کی بابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’روز محشر جنت کا خازن رضوان، جنت اور دوزخ کی چابیاں لے کر سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کرے گا اور کہے گا، اے ابوبکر! رب کریم ،آپ کو سلام فرماتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ یہ جنت اور دوزخ کی چابیاں اپنے پاس رکھ لیں، جسے چاہو جنت میں بھیج دو اور جسے چاہو دوزخ میں بھیج دو‘‘
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:’’میں ایسے شخص سے آگے بڑھنے کا یارا نہیں رکھتا، جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’جبریل امین علیہ السلام نے مجھے آکر بتایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کے بعد فرماتا ہے کہ میں تم سے اور علی سے محبت کرتا ہوں،اس پر میں نے سجدئہ شکر ادا کیا، پھر کہا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’میں فاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے بھی محبت کرتا ہوں، میں پھر سجدئہ شکر بجا لایا۔ پھر کہا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’میں حسن و حسین(علیہما السلام) سے بھی محبت کرتا ہوں، اس پر میں نے سجدئہ شکر ادا کیا‘‘
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے کہا:’’میں ایسے بزرگ سے کیسے آگے بڑھوں، جس کے بارے میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر روئے زمین کے تمام لوگوں کے ایمان کا ابوبکر کے ایمان کے ساتھ وزن کیا جائے، تو ابوبکر کا ایمان سب سے وزنی ہو گا‘‘
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ایسی محبوب شخصیت سے کیسے آگے بڑھوں، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبر دی ہو:’’قیامت کے دن علی المرتضیٰ، ان کی اہلیہ اور اولاد اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں گے تو لوگ کہیں گے یہ کون ہیں؟۔ منادی کہے گا:’’یہ اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں، یہ علی بن ابی طالب ہیں‘‘
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے کہا:’’بھلا میں ایسی محترم شخصیت سے کیوں کر آگے بڑھوں، جن کے بارے میں حضورسرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’اہل محشر جنت کے آٹھوں دروازوں سے یہ آواز سنیں گے:’’صدیق اکبر! جنت کے جس دروازے سے جی چاہے، تشریف لائیں‘‘۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’میں اس شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا، جس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہو:’’علی کا محل میرے اور ابراہیم علیہ السلام کے محلوں کے درمیان ہو گا‘‘
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے کہا:’’اس وجیہ مرد سے آگے کیسے بڑھوں، جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے:’’آسمانوں کے فرشتے کروبیین، روحانیین اور ملاء اعلیٰ روزانہ ابوبکر کو تکتے رہتے ہیں‘‘
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:’’میں ایسی پیکر ایثار شخصیت سے کیسے تقدم کروں، جس کی اولاد اور خود اس کے اپنے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہو:’’اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں‘‘
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے کہا:’’میں ایسے متقی شخص سے کیوں کر فائق ہو سکتا ہوں، جس کے بارے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان والا شان ہو:’’وہ ہستی، جو سچ لے کر آئی اور جنہوں نے اس سچائی کی تصدیق کی، یہی وہ لوگ ہیں جو پرہیزگار ہیں‘‘
دونوں جلیل القدر شخصیات کا باہمی اکرام و اعزاز دیدنی تھا، ان کا محبت بھرا مکالمہ جاری تھا کہ جبریل امین علیہ السلام ، رب العالمین کی طرف سے رسول صادق و امین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی:’’یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ ساتوں آسمانوں کے فرشتے اس وقت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی زیارت کر رہے ہیں اور ان کی ادب و احترام پر مبنی گفتگو سن رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں حضرات کو ان کے حُسنِ ادب، حسنِ اسلام اور حسنِ ایمان کے باعث اپنی رحمت و رضوان سے ڈھانپ لیا ہے۔ آپ ان کے پاس ثالث کی حیثیت سے تشریف لے جائیں، چناں چہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمتشریف لائے۔ دونوں کی باہمی محبت کو دیکھ کر ان کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا:’’قسم ہے اس (رب) کے حق کی، جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے، اگر سارے سمندر سیاہی ہو جائیں، درخت قلمیں بن جائیں اور زمین و آسمان والے لکھنے بیٹھ جائیں، پھر بھی تمہاری فضیلت اور اجر بیان کرنے سے عاجز رہ جائیں‘‘۔( نورالابصار)
اسی طرح سیدنا فاروق اعظم اور سیدنا عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی شیرخدا سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے دوستانہ مراسم تھے۔
سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم بلند پایہ اخلاق و کردار کے حامل تھے، آپ کی پرورش و تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی، اسی لیے صاحب خُلق عظیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مظہر اتم تھے، آپ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ خندہ روئی سے پیش آتے، قول و فعل میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات میں سرِمو فرق نہ آنے دیتے۔ آپ کی زندگی زہد و استغناء، دنیا سے بے رغبتی، خشیت الٰہی، عفو و درگزر اور سادگی سے عبارت تھی،ریاض النضرۃ میں سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہسے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے فرمایا:’’(اے علی المرتضی کرم اللہ وجہہ!)اللہ تعالیٰ نے تجھے ایسی چیز کے ساتھ مزین فرمایا ہے، جس سے زیادہ پسندیدہ زینت کسی اور کو نہیں ملی، اللہ کے ہاں یہ ابرار کی زینت ہے، یہ زینت دنیا میں زہد (بے رغبتی) ہے،اللہ نے تجھے ایسا بنایا ہے کہ دنیا تجھ سے کچھ نہیں پائے گی اور تجھے دنیا سے کچھ نہ ملے گا، تیرے ساتھ ہمیشہ مسکین لوگ رہیں گے، جن پر تو راضی ہو گا اور وہ تیری امامت پر راضی ہوں گے۔‘‘