تذکرہ شہدائے غزوۂ خیبررضی اللہ عنہم
مدینہ منورہ سے شمال مشرق میں یہودیوں کی ایک طاقت ور بستی تھی جس میںیہودیوں نے مضبوط اور مستحکم قسم کے قلعے بنا رکھے تھے ۔ جن سے اُن کی حفاظت ہوتی تھی اور وہ وقتاً فوقتاً اُن سے نکل کر مسلمانوں کو تنگ اور پریشان کرتے تھے یہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ تو ان یہودیوں سے مقابلے کے لیے خیبر کے مقام ایک جنگ لڑی گئی جس میں کفار کا نامی گرامی پہلوان مرحب کو سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے واصل جہنم کیا ،مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور یہودیوں کا غرور خاک میں ملا گیا ۔ مقتولین اور شہدائے کرام کے حوالے سے مختلف آراء ہیں ۔محتاط قول کے مطابق اس غزوہ میں 93یہودی مارے اور 15صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جام شہادت نوش کیا۔ ذیل کی سطور میں کچھ شہدائے خیبر رضی اللہ عنہم کے احوال اپنے قارئین کرام کی نذر ہیں ۔
۔سیدنا محمود بن مسلمہ رضی اللہ عنہ۱
آپ رضی اللہ عنہ غزوہ خیبر کے پہلے شہید ہے ، خاندانی تعلق قبیلہ بنو اوس سے تھا ۔ متعدد جنگوں میں سپہ سالاری کے فرائض سرانجام دینے والے بدری صحابی سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ آپ کے بھائی ہیں ۔ آپ نے غزوہ احد اور خندق میں اپنے قوت ِ بازو کے جوہر دکھائے ، بیعت الرضوان میں شریک ہوئے ۔خیبر کی جنگ میں گرمی کی شدت سے کچھ لمحات تازہ دم ہونے کے لیے یا اپنے دشمن کو جنگی چال چل کے دوبارہ حملہ آور ہونے کیل یے آپ قلعہ ناعم کے کسی ذیلی مکان کے سائے میں بیٹھ گئے اس گمان میں کہ یہاں کوئی یہودی سپاہی موجود نہیں ہوگا لیکن مرحب یہودی نے آپ کو قلعہ کی فصیل سے دیکھ لیا ،مرحب نے خود یا کسی کی شراکت سے چکی کا ایک پاٹ گرادیا جو آپ کے سر پر لگا جس سے آپ کی خود پیشانی کو کاٹ کر چہرے پر آپڑی اِسی حالت میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس حصے کو واپس جوڑ ا تو وہ ویسا ہی ہوگیا جیسا تھا اوراوپر سے سے پٹی کردی ، جب آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس روح فرسا منظر کے ساتھ لایا گیاتو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حالت دیکھ کر ان کے بھائی سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : ’’ کل تمہارے بھائی کا قاتل قتل ہوجائے گا ‘‘ چناں چہ ایسے ہی ہوا اور اگلے دن شیرخدا سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے ہاتھوں مرحب یہودی فی النار ہوگئے ۔
وادی الرجیع میںتین دن کے علاج کے بعد آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ،سیدنا محمود بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ ایک ہی قبر میں آرام فرما ہوئے ۔
۲۔ سیدنا عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ
آپ کا نام نامی’’ عامر‘‘ اور والد کا نام’’ سنان‘‘ ہے، جب کہ آپ اپنے دادا کی نسبت کی وجہ سے’’ عامر بن اکوع‘‘ مشہور ہوئے۔بعض تذکرہ نگاروں کے نزدیک’ سنا ن‘ کو نام ’ اکوع ‘ بھی تھا ۔ آپ نے غزوہ خیبر سے قبل اسلام قبول کر لیا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کا قافلہ خیبر کی طرف رواں دواں تھا ہر طرف سناٹا ہی سناٹا ۔تو ایک صاحب نے آپ رضی اللہ عنہ سے فرمائش کی کہ کچھ کلام سنائیں تو آپ نے یہ اشعار پڑھے ( جن کا ترجمہ ہے ):’’ اے اللہ! اگر تو(اپنے حبیب ِمکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرما کر) ہماری دستگیری نہ فرماتا تو نہ ہمیں صدقہ دینے کی تو فیق ہوتی اور نہ نماز پڑھنے کی۔(اے اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ پر نثار! ہم نے شیطان کی پیروی کرتے ہوئے جو گناہ کئے وہ ہمیں بخش دے اور جب دشمن سے ہمارا مقابلہ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ ہم پر تسکین نازل فرما جب ہمیں جہاد کے لئے پکارا جاتا ہے تو ہم حاضر ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے چیخ وپکار سے ہم پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے اور جس وقت وہ ہمیں کسی فتنہ میں مبتلا کرتے ہیں تو ہم اس میں مبتلا ہونے سے انکار کرتے ہیں۔‘‘
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے روایت کیا کہ یہ اشعار سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پو چھا : یہ اشعار پڑھنے والا کون ہے ؟صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ! یہ عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ ہیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بلایا اور اشعار سماعت فرمائے۔ اس وقت ایک سماں بندھ گیالوگوں پر کیف و وجد طاری ہو گیا، اونٹ مست ہو کر تیز تیز چلنے لگے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے رحمت کی دعا فرمائی ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی اس وقت موجود تھے آپ نے عرض کیا :’’ اس پر شہادت واجب ہو گئی ہے، اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیوں نہیں ان کو زندہ رکھا کہ ہم ان سے(اچھے اچھے قصیدے اور اشعار سن کر) فوائد حاصل کرتے ۔‘‘
آپ کے بھائی سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خیبر کی جنگ میں میرے بھائی عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بہت شدت سے جنگ کی ، لڑائی کی شدت میں ان کی تلوار ان کے مقابل کی تلوار سے کٹ کر ان کے جسم میں آلگی جس سے وہ شہید ہوگئے ۔ کچھ لوگوں نے کہا : ان کا عمل ضائع گیا ۔ یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سماعتوں تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس نے یہ بات کی ہے اُس نے جھوٹ کہا ،وہ تو کوشش کرنے والا مجاہد تھا ،کم ہی کم عربی اس کی طرح پلا بڑھا ہوگا‘‘ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر نے لکھا کہ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ان کے لیے دوہرا اَجر ہے ‘‘ آپ اور غزوہ خیبر کے پہلے شہید سیدنا محمود بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو ایک ہی قبر میں سلایا گیا ۔
۳۔سیدنا ربیعہ بن اکثم رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ’ ابوزید ‘ ہے اورخاندانی تعلق قبیلہ بنواسد بن خزیمہ سے تھا۔اس قبیلہ کوجہاں دیگر شرف کے اعزاز حاصل ہیں وہیں یہ اعزاز بھی اس قبیلہ کا ہے کہ جب حق وباطل کا پہلا معرکہ بدر کے میدان میں ہوا اس میں اس قبیلہ بنو اسد بن خزیمہ کے بارہ افراد شریک تھے ۔ سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے :’’ربیعہ بن اکثم بن سنجرہ بن عمرو بن بکیر بن عامر بن غم بن دودان بن اسد بن خزیمہ اسد ی ‘‘آپ غزوۂ بدر سے پہلے تئیس سال کی عمر میں مشرف باسلام ہوئے،آپ اتنے دراز قد نہ تھے لیکن بلند ہمت اور قوت وشجاعت کے پیکر تھے ۔بدر کے معرکہ میںشرکت کی سعادت پائی نیز غزوۂ احد، خندق کے معرکوں میںبھی اپنے بازوئے جرأت کے جوہر دکھائے ۔بیعت الرضوان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست ِ برکت پر بیعت کرنے کا شرف آپ کو بھی حاصل تھا ۔سات ہجری میں جب خیبر کے مقام پر غزوہ منعقد ہوا تو آپ اس میں شریک ہوئے تو ان کو حارث نامی ایک یہودی نے خبیر کے قلعوں میں ایک قلعہ نطاۃ کے مقام پر شہید کیا ۔ آپ کی عمر کے بارے میں دو قول پائے جاتے ہیں ایک قول سینتیس سال کا ہے اوروسرا قول تیس سال کا پایا جاتا ہے ۔
۴۔ سیّدنا ثقف بن عمرو بن سمیط رضی اللہ عنہ
قبیلہ بنو غنم بن ادوان سے تعلق رکھنے والے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا ثقف بن عمرو بن سمیط رضی اللہ عنہ غزوہ ٔ بدر کے شرکاء میں سے ہیں۔ ان کے دونوں بھائی ’’مدلاج‘‘ اور ’’مالک‘‘ غزوہ بدر میں شریک ہوئے ۔مکہ مکرمہ میں ان کا قبیلہ بنی عبد مناف کے حلیف تھے ۔ کچھ تذکرہ نگاروں نے ان کا نام ’’ ثقیف ‘‘ اور کنیت ’’ ابومالک ‘‘ تحریر کیا ہے ۔غزوۂ خیبر میں ’اسیر ‘ نامی یہودی کے ہاتھوں آپ نے جام شہادت نوش فرمایا ۔
۵۔ سیدنا رِفاعہ بن مسروح رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ قبیلہ بنو اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتے تھے اور یہ قبیلہ بنی عبد شمس کا حلیف تھا ۔معروف سیرت نگار ابن اسحاق نے انھیں شہدائے خیبر میں شمار کیا ہے ۔ان کے مزید حالات کے حوالے سے تمام کتب خاموش ہیں ۔
۶۔ سیدنا ابوالضیاح بن ثابت رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ کے نام دو قول پائے جاتے ہیں ۔ ایک روایت میں ان کا نام ’نعمان ‘ ہے اور ایک دوسری میں ان کا نام ’ عمیر‘ ہے ۔ اپنی کنیت ’’ ابوالضیاح ‘‘ سے معروف ہوئے ۔آپ قبیلہ بنو اوس سے تعلق رکھتے تھے ۔غزوۂ بدر ،احد ، خندق اور صلح حدیبیہ میںشریک ہوئے ۔ معرکہ خیبرمیںایک یہودی نے ان کے سر پر وار کیا اور جام شہادت نوش فرمایا ۔
۷۔سیدنا عدی بن مرہ رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے :’’ سیدنا عدی رضی اللہ عنہ بن مرہ سراقہ بن خباب بن عدی بن جد بن عجلان بلوی ‘‘ آپ شہدائے خیبر میں سے ہیں ،دوران جنگ ایک یہودی نے آپ کے سینے پر برچھی سے وار کیا جس سے آپ نے جام شہادت نوش کیا ۔
۸۔سیدنا اوس بن حبیب رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف سے ہیں ،ان کا اسم گرامی ’’سیدنا اوس بن جبیر رضی اللہ عنہ‘‘ بھی ذکر کیا گیا ہے ۔خیبر کی جنگ میں قلعہ ناعم کی فتح کے دوران آپ اعزازِشہادت سے مشرف ہوئے ۔
۹۔سیدنا اُنیف بن وائلہ رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ شہدائے خیبرمیں سے ہیں ،آپ کے والد کے نام میں تذکرہ نگاروں کی دو رائے ہیں ، واقدی نے لکھا کہ یائے تحتانی کے ساتھ ہے یعنی سیدنا اُنیف بن وایلہ رضی اللہ عنہ اور ابن اسحاق نے ان کا نام واثلہ لکھا ۔
۱۰۔ سیدنا مسعود بن سعد رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ کا خاندانی تعلق بنو اوس سے ہے ۔ان کا تذکرہ مسعود بن سعد یا مسعود بن عبد سعد کے اسماء سے کیا گیا ہے ۔سلسلہ نسب اس طرح ہے :’’ مسعود بن سعد بن عامر بن عدی بن جشم بن مجدعہ بن حارثہ بن حارث بن خزرج بن عمرو بن مالک بن اوس انصاری ‘‘۔آپ غزوہ خیبر میںشہید ہوئے ۔
۱۱۔ سیّدنا فضیل بن نعمان رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ خاندان بنی سلمہ سے تھے ۔ کتب رجال وتذکار میں ان کا نام شہدائے غزوہ خیبر میں ذکر کیا جاتا ہے لیکن ان کے نسب اور دیگر احوال کے متعلق کچھ نہیں ملتا۔
۱۲۔ سیّدنا عمارہ بن عقبہ رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ از قبیلہ بنی غفار سے ہیں ،غزوۂ خیبر میں ایک تیرلگنے سے آپ کی شہادت ہوئی ۔
٭…٭…٭