• قصص وواقعات

واقعہ کربلا اسباب ومحرکات

واقعہ کربلا اسباب و محرکات اور دروس

لاریب  سانحہ کربلا بہت  بڑا سانحہ ہے جسے جس قدر یاد کیا جائے کم ہے ،  امام عالی مقام علیہ السلام کی قربانی اس سے بھی کہیں زیادہ بڑی ہے جس قدر گذشتہ چودہ سو سال میں انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ واقعہ کربلا حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کا ایک استعارہ بن چکاہے۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس واقعہ کو تحقیقی انداز میں بھی دیکھا جائے اور خصوصاً اس کے محرکات و اسباب اور ان عوامل تک رسائی، اور واقعات کی تحقیق بہت ضروری ہے کیونکہ کچھ عرصہ سے ایک طبقے کی طرف سے یزید کو بے گناہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔  یہ واقعہ ایک دم وقوع پذیر نہیں ہو گیا اس کے پیچھے ایک طویل تاریخ تھی۔ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بے رحمانہ شہادت کے بعد، مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے آغاز سے ہی مسلمانوں میں خانہ جنگی کی فضا پیدا ہوچکی تھی، یہ مولائے کائنات کرم اللہ وجہہ کا حلم، تدبر،اور کمال دانشمندی تھی کہ عالم اسلام ایک بڑی خون ریزی سے بچ گیا۔ تاآنکہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئی کے عین مطابق شہزادہ گلگوں قبا، راکب دوش مصطفی سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اپنی سیاسی دانشمندی سے مسلم اُمہ کو پھر ایک جگہ اکٹھا کر دیا اور یوں مسلمان ایک بہت بڑی خون ریزی سے بچ گئے اس صلح کے سال جب  آپ کی لازوال قربانی،دور اندیشی سے خانہ جنگی رک گئی مسلم امہ کے ا یک امیر کی قیادت میں مجتمع ہوگئی تو اسی سال کو ’’عام الجماعہ‘‘ یعنی اجتماعیت لوٹ آنے کا سال کہا گیا۔
پھر یزید جس طریقے سے تخت نشیں ہوا وہ اسلام کے مزاج کے خلاف بات تھی، اگر اس کو نہ روکا جاتا تو آگے چل کر مسلمانوں میں ولی عہدی کی یہ رسم چل پڑتی اوراس کے ذریعہ قیصر وکسری کی روایتیں زندہ ہو جاتیں۔ اوران سب سے بڑھ کر یزید کا ذاتی کردار بھی کھل کر سامنے آگیا وہ ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں۔،شریعت مطہرہ کی سر عام دھجیاں اڑائی جانے لگیں، جوا و شراب سرکاری سرپرستی میں عام ہونے لگا، لہٰذا ذاتی حیثیت سے بھی کسی فاسق و فاجر کو بطور حکمران تسلیم کرنا جگرگوشہ رسول سیدنا امام حسین علیہ السلام کے لیے کس طرح ممکن ہو سکتا تھا ؟ کیا اس سب کو اطمینان سے برداشت کر لینا آغوش مصطفی ﷺ میں پروان چڑھنے والے، اپنی آنکھوں سے صدیقی، فاروقی، عثمانی،علوی،اور حسنی ادوار میں اسلام کی پاکیزگی، تقدس، حرکت اور فعالیت کا مشاہدہ کرنے والے اس بنیادی اور ہمہ گیر تبدیلی کو خاموشی سے قبول کر سکتے تھے۔ اس کا جواب یک لفظی ہے ہوگا وہ تھا ہر گز نہیں۔ پس یہ وہ سبب تھا جس نے سیدنا امام حسین علیہ السلام کو اجلہ صحابہ،اعزاواقربا،کے منع کرنے کے باوجود تن تنہا میدان جہاد میں نکلنے پر مجبور کر دیا انہوں نے بنجر ذہنوں کو شاداب کرنے،مردہ دلوں کو زندگی بخشنے، خفتہ ضمیروں کو بیدار کرنے اور رائے عامہ کو فعال بنانے کا تہیہ کر لیا انسانوں کو حریت فکر و سوچ،آزادی رائے،جرات اظہار، یقین و ایمان اور ولولہ و شوق سے سرشار کرنے کے لئے میدان عمل میں نکل آئے اور زمانہ شاہد ہے کہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب رہے انہوں نے اپنا خون دے کرقیامت تک آنے والی نسل انسانی کو فکری حریت، ایمانی غیرت اور جذبہ جہاد سے بہرہ ورکر دیا۔
ادھر سے یزید نے امام عالی مقام علیہ السلام کی بیعت لینے کے لیے اپنے عمال کو سختی سے نمٹنے کا حکم دیا لیکن گورنرمدینہ ولید نے کہا دنیا سونے کی بھی بنا کے مجھے دے دی جائے تب بھی میں سیدناامام حسین علیہ السلام پر سختی نہیں کر سکتا ولید کو معزول کر دیا گیا تو مروان نے سختی کرنا چاہی تو امام عالی مقام علیہ السلام نے اہل کوفہ کی دعوت پر مکہ المکرمہ کی جانب اپنے اہل خانہ کے سفر اختیار کیا اور وہاں سے کوفے کی جانب روانہ ہوئے۔ تاکہ وہ خلافت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کر سکیں۔ 
شمرالجوشن کی فوج میں شامل کئی وہ کوفی بھی شامل تھے جو خط روانہ کرنے والوں میں شامل تھے اسی لیے جب وہ لوگ سامنے آئے تو امام عالی مقام علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اے اہل کوفہ افسوس ہے تم پر! کیا تم اپنے خطوط اور اپنے وعدوں کو بھول گئے، جو تم نے ہم سے کیے تھے، اور تم نے اس پر خدا کو گواہ بنایا تھا، حیف صد حیف! تم نے اپنے نبی کے اہل بیت کو بلایا اور یہ وعدہ کیا کہ ان کے لیے اپنی جانیں نچھاور کر دو گے، اور جب تمہارے وعدوں پر بھروسہ کر کے وہ تمہارے پاس آئے تو تم نے انھیں ابن زیاد کے حوالہ کر دیا، جس نے ان پر فرات کا پانی بند کر دیا تم نے اپنے نبی کی اولاد کے ساتھ نہایت ہی گھناونا برتاؤ کیا ہے، قیامت کے دن خدائے پاک تمہیں بھی پیاسا ہی رکھے۔
دس محرم الحرام جمعہ کے دن دل بند ِ مرتضیٰ سیدنا امام حسین علیہ السلام نے فجر کی نماز ادا کی، آپ کے ساتھیوں میں بتیس سوار اور چالیس پیادہ تھے، آپ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور فوج کو مخاطب کرکے انہیں یاد دلانے لگے کہ وہ کون ہیں کس کے نواسے اور بیٹے ہیں، اور ان کی کیا حیثیت اور مقام ہے! وہ فرماتے تھے کہ لوگو! اپنے دل کوٹٹولو اور اپنے ضمیر سے پوچھو، کیا مجھ جیسے شخص سے جنگ کرنا جبکہ میں تمھارے  نبی ﷺ کا نواسہ ہوں درست ہے؟ (البدایہ والنہایہ: 179/8)
اسی اثناء میں شمرذی الجوشن آگے بڑھا اور امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام کے قافلہ پر حملے شروع کردیے، گھمسان کی جنگ ہوئی، سیدنا امام حسین علیہ السلام کے جاں نثار ایک ایک کر کے آپ پرفدا ہوتے رہے، آپ ان کے لیے دعا کرتے رہے اور ’’جزاکم اللہ أحسن جزاء المتقین‘‘ فرماتے رہے، آپ کے سامنے آپ کے رفقاء اور خاندان کے افراد شہید ہوتے گئے، آپ تنہا بچے لیکن کسی کی ہمت نہ تھی کہ آپ کا سامنا کرے،آپ بڑی دیر تک میدان میں گھومتے رہے لیکن مقابلہ کے لیے کوئی آگے نہ بڑھا، بالآخر شمر نے کوفی جنگجوؤں کو للکار کر کہا:اب حسین کا کام تمام کرنے میں کیا انتظار ہے؟ آگے بڑھو اور انھیں گھیرے میں لے کر حملہ کرو، وہ چاروں طرف سے بڑھے، سیدناامام حسین علیہ السلام نے ثابت قدمی سے مقابلہ کیا، پھر زرعہ بن شریک تمیمی نے لپک کر آپ کے شانہ مبارک پر وار کیا، سنان بن انس نے نیزہ سے حملے کیے، اور پھر گھوڑے سے اتر کر سر مبارک تن سے جدا کر دیا۔ (لعنۃ اللہ علیہم أجمعین)
ہرمحرم میں تمام مسلمان سیدناامام حسین علیہ السلام کی شہادت پر اپنے قلبی رنج کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر ان غمزدگان میں بہت کم لوگ اس جانب اس مقصد کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس کی خاطر امام عالی مقام علیہ السلام نے اتنی بڑی قربانی د ی۔ اس ظلم عظیم پر غم کا اظہار ہمارا شرعی اور اخلاقی فریضہ ہے مگر اس جانب توجہ کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ اس مقصد کو جانا جائے کہ جس کی خاطر انہوں نے اپنا پورا خاندان قربان کر دیا۔بذات خود امام عالی مقام علیہ السلام کا اتنی بڑی قربانی دینا ہی اس مقصد کی اہمیت کو واضح کرتا ہے کہ ان کو اپنا مقصد عظیم اپنی اور اپنے اہل خانہ و اصحاب رضی اللہ عنہم کی جانوں سے کہیں زیادہ عزیز تھا۔ اسی لیے ہم اگر امام عالی مقام علیہ السلام سے محبت کے دعویدارہیں محض اظہارِ غم کرنا ان کے قاتلوں پر لعن طعن کرنا کافی نہیں نہ ہی امام عالی مقام علیہ السلام اس سے خوش ہوں گے وہ اپنے مقصد و مشن کی کامیابی اور اس کے وابستگی پر ان کی روح کو تسکین ہوگی اور رب قدیر کی بارگاہ میں اس کام کی قدر وقیمت بھی ہوگی۔
 سیدنا امام حسین علیہ السلام نے شہادت کا جو نمونہ پیش کیا، وہ محض اپنی ذات تک محدود نہیں۔ انہوں نے اپنے شیر خوار بچوں سمیت پورے خاندان کوقربان کردیا۔ شاید تنہا نواسۂ رسول کی شہادت حصولِ مقصد کے لئے کافی تھی، لیکن نوجوانانِ جنت کے سردار سیدنا امام حسین  علیہ السلام کے سامنے پوری انسانیت کے لئے یہ نظیر قائم کرنا تھی کہ حق کی علم برداری اور دین کا احیا اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ دین سے محبت رکھنے والااس کے لئے اپنی کسی بھی عزیز سے عزیز متاع کو بھی اللہ کی راہ میں لٹا اور مٹا دینے سے گریز نہ کرے۔
اسلامی تاریخ کا یہ عظیم واقعۂ شہادت، امتِ مسلمہ کو یہ تحریک دیتا ہے کہ وہ اسی طرح اسلام کے لئے فداکارانہ جذبہ کے تحت سال کی شروعات کریں اور پورے سال اس جذبہ کو اپنے سینوں میں تازہ رکھیں۔ اس بات کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی رہے گی کہ سیدناامام عالی مقام علیہ السلام کی شہادت کی اصل حقیقت اور اس کے پیغام کی روح کوتاویلات کے پردوں میں چھپا دیا جائے تاکہ نئی نسلوں کے لئے وہ قوتِ فکروعمل کے ماخذ اورسرچشموں کی حیثیت سے ان کے ذہنوں میں باقی نہ رہے۔
 شہادتِ کربلا کے واقعہ پر صدیاں گزر گئیں لیکن یہ واقعہ اپنی پوری اہمیت کے ساتھ اب بھی ذہنوں میں اس طرح تازہ ہے جیسے یہ واقعہ ابھی حال ہی میں پیش آیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس نے اس واقعے سے سبق اور عبرت حاصل نہیں کیا۔ اس کے افکارو نظریات اس کے انمٹ نقوش قائم نہ ہوئے ہوں۔ اگر غور سے اس واقعے پر نظر ڈالیں تو شاید کہا جاسکتا ہے کہ ان چند مہینوں میں سیدنا امام حسین علیہ السلام کی تحریک سے، جب آپ مدینہ منورہ سے نکلے، مکہ معظمہ آئے آئے، کربلا پہنچے اور جام شہادت نوش فرمایا،انسانیت کے لیے ہزاروں درس ہیں جن میں سے ہر ایک، ایک پوری قوم، ایک تاریخ اور ایک ملک کے لیے اپنی تربیت، معاشرے کے امور چلانے اور تقرب خدا کے حصول کے لیے، ایک درس ہے۔ اہم ترین درس یہ ہے کہ انہوں نے پوری امت کی طرف سے فرض کفایہ کے طور پر اسلامی نظام ِ اجتماعی کے تحفظ کی خاطر اپنی قیمتی جان قربان کردی۔ اس طرح آپ علیہ السلام کی ذات حق کی حفاظت کے لئے آخری حد تک خود کو لٹا دینے اور سب کچھ نچھاور کر دینے کا آخری استعارہ اور روشن علامت بن گئی۔امت کا سوادِ اعظم اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ سیدنا امام حسین علیہ السلام کا اپنی جان کا نذرانہ دینااصل میں یزید کی ہی موت ہے اور یہ کہ اسلام کی زندگی کربلا جیسے واقعات میں ہی پوشیدہ ہے۔ 
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا لے بعد

ۚ