• فقہی مسائل

زکوۃ ادا کرنے کے آداب

زکوٰۃ اداکرنے کے آداب
مفتی محمد زمان سعیدی رضوی

زکوٰۃ حقیقت میں اس وقت اجر و ثواب کا موجب ہوتی ہے جب اسے ان جذبات اور احساسات کے ساتھ ادا کیا جائے جن کا تقاضا قرآن و سنت نے کیا ہے۔ زکوٰۃ کے کچھ ظاہری اور باطنی آداب ہیں، جب وہ پائے جائیں تو زکوٰۃ کے حقیقی فوائد و ثمرات حاصل ہو سکتے ہیں۔ جبکہ ان آداب کے بغیر زکوٰۃ بے روح جسم یا بے خوشبو پھول کی مانند ہوتی ہے جو نظر تو آتا ہے لیکن اس میں ماحول کو معطر کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ زکوٰۃادا کرنے کے چند آداب ملاحظہ ہوں۔
حسن نیت: کوئی بھی نیک عمل وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو اس کی بجا آوری کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو جب نیت میں رضائے الٰہی کے علاوہ کوئی بھی اور غرض شامل ہو جائے تو وہ عمل باطل ہو جاتا ہے زکوٰۃ ادا کرتے وقت بھی سوائے اللہ رب العزت کی رضا اور خوشنودی کے اور کوئی مقصود نہیں ہونا چاہیے۔ ارشاد ہے: ’’تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو اسی لئے تو کرتے ہو کہ تمہیں خدا کی خوشنودی حاصل ہو جائے‘‘۔ (سورۃ البقرہ)
 اخلاص نیت سے خرچ کیا ہوا مال اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اس کا اجر و ثواب بہت بڑھا دیتا ہے وہ تو خلوص نیت سے صدقہ کی گئی ایک کھجور کو احد پہاڑ کے برابر کر دیتا ہے۔ قرآن مجید میں حسن نیت سے کئے گئے صدقہ کے اجر و ثواب کو اس خوبصورت تمثیل سے بیان کیا گیا: ’’اور ان لوگوں کے عمل کی مثال جو اپنے مال اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اپنے دلوں کو ثابت رکھنے کے لیے خرچ کرتے ہیں اس باغ کی مانند ہے جو بلندی پر واقع ہو اس پر بارش ہو گئی تو دو گنا پھل لایا اور اگر بارش نہ ہوئی تو شبنم ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے اعمال کو بخوبی دیکھ رہا ہے۔‘‘ (سورۃالبقرہ) یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے طالب بن کے اگر صدقہ و خیرات زیادہ کیا تو کیا کہنے اور اگر زیادہ نہ بھی ہو سکا تو اللہ تعالیٰ اسے ہی اس کیلئے کافی کر دیگا۔
ریاکاری سے مکمل اجتناب: یہ حسن نیت کا منطقی نتیجہ ہے، ریاکاری ایک ایسی بیماری ہے جو اعلیٰ سے اعلیٰ عمل کو بھی خاک میں ملا دیتی ہے اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس عمل کی ذرہ برابر بھی قدرو قیمت نہیں رہتی جس میں نمود و نمائش کا جذبہ شامل ہو جائے ایک روایت کے مطابق جس نے نمودو نمائش کرتے ہوئے کوئی بھی عمل کیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا جس کو دکھانے کے لیے عمل کیا تھا اس کا اجر و ثواب بھی اسی سے لے۔ بروز حشر وہ آدمی عرش الٰہی کے سایہ میں ہو گا جس نے اس طرح چھپا کر صدقہ کیا ہو گا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو گی کہ دائیں نے کیا صدقہ کیا تھا۔ قرآن مجید میں ریاکارانہ صدقہ کی تمثیل یوں بیان کی گئی: ’’اس کے صدقہ کی مثال ایسے ہے جیسے ایک چٹان پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ جب اس پر زور کا مینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ان کی کمائی میں سے ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا اور اللہ تعالیٰ ناشکروں کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔‘‘ (سورۃالبقرہ)
سال گزرنے سے پہلے : یعنی زکوٰۃ فرض ہونے سے پہلے ہی حکمِ الٰہی کی طرف اپنی رغبت سے زکوٰۃ ادا کر دے تاکہ فقرا کے دلوں میں جلد خوشی داخل ہو نیز تاخیر کی وجہ سے بعد میں دینے  میں کوئی رکاوٹ نہ پیش آ جائے۔
اختتامیہ میں حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف احیاء العلوم سے زکوٰۃ کے آداب کے متعلق جو کچھ تحریر فرمایا نذرِ قارئین کرام ہے 
 آپ فرماتے ہیں :’’جو کوئی چاہتا ہے کہ میری عبادت زندہ رہے اور ثواب دُگنا ملے تو اس چاہیے کہ سات آداب اپنے اوپر لازم کر لے۔‘‘
1۔ زکوٰۃ دینے میں جلدی کیا کرے اور واجب ہونے سے پہلے بھی سال بھر میں کبھی دے دیا کرے۔
2۔ زکوٰۃ ایک بار دینا ہو تو محرم کے مہینے میں دے کہ بزرگ مہینہ ہے اور سال کا شروع ہے، یا رمضان المبارک میں دے کہ دینے کا وقت جتنا بزرگ ہو گا ثواب اتنا زیادہ ملے گا۔
3۔ زکوۃ چھپا کر دے، برملا نہ دے، تا کہ ریا سے دور اخلاص کے نزدیک رہے۔
4۔ اگر ریا کا بالکل اندیشہ نہ ہو، تو دوسروں کی ترغیب کی خاطر برملا دینا بہتر ہے۔
5۔ احسان جتلا کر اور لوگوں کو سنا کر صدقہ ضائع نہ کرے۔
6۔ احسان نہ رکھے کہ یہ امید لگائے کہ جس کو زکوٰۃ دی وہ میرے ہر کام میں مستعد رہے، مجھے سلام کرے، مجھے زیادہ عزت دے۔
7۔ اپنے مال میں جو بہت اچھا اور بہتر اور حلال ہو، وہ فقیر کو دے اس لیے کے جس مال میں شبہہ ہو، وہ رب کی قربت حاصل کرنے کے لائق نہیں۔
اس کے بعد امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مستحقین میں سے جس کو زکوٰۃ دے رہا ہے، اس میں اس بات کا لحاظ رکھے کہ کس کو صدقہ و زکوٰۃ دینے سے اس کا صدقہ بڑھتا رہے گا، تو اس کا اہتمام ایسے لوگوں کو دے کر کیا جا سکتا ہے جس میں یہ صفات موجود ہوں:
 ایسے لوگوں کو صدقہ دیں، جو متقی اور پرہیز گار ہوں۔ اپنا صدقہ اہل علم کو دیں، اس سے آپ بھی علم کے حصول اور نشر و اشاعت میں تعاون کرنے والے بن جائیں گے۔ جس کو صدقہ دیا جائے وہ اپنے تقوی اور عمل میں مخلص اور موحد ہو۔ ایسے آدمی کو صدقہ دے، جو حاجت مند ہونے کے باوجود اپنی حاجت کا اظہار نہ کرے۔ ایسے آدمی کو صدقہ دیا جائے جو غریب اور عیال دار ہو، یا کسی بیماری میں مبتلا ہو۔جس کو صدقہ دیا جائے وہ عزیز و اقارب میں سے ہو تا کہ صدقہ کا ثوب بھی ملے اور صلہ رحمی کا اجر بھی۔ یونہی سفید پوش کہ اپنی ضرورت چھپاتا ہو یا جو مستحق بال بچوں والا ہو یا کسی مرض یا کسی اور وجہ سے کمانے سے رکا ہوا ہو یا اپنا قریبی رشتہ دار ہو تو یہ صدقہ بھی ہو گا اور صلۂ رحمی بھی اور صلہ رحمی میں بے شمار ثواب ہے۔ دین داروں کو دینے میں بھی دوگنا ثواب ہے کہ صدقے کا بھی ثواب ہے اور خدمتِ دین میں سہولت فراہم کرنے کا بھی۔سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی طرف منسوب ایک فرمانِ مبارک میں ہے: ’’کسی اجنبی کو دس درہم دینے سے بہتر ہے کہ میں اپنے کسی بھائی کو ایک درہم دے دوں۔‘‘زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی میں اگر ان تمام باتوں کا لحاظ رکھا جائے تو یہ آخرت کا بہت بڑا ذخیرہ اور غنیمت کبری ثابت ہو گا۔