نمازِ تراویح کی فضیلت واہمیت
رمضان المبارک میں جتنی بھی عبادت کی جائے کم ہے کہ اس مہینہ میں ہر نفلی عبادت کا ثواب فرض کے برابر اور فرض عبادت کا ثواب ستر گنا زیادہ ہوتا ہے ۔ قرآن کریم کی تلاوت کثرت سے کی جائے کہ یہ نزول قرآن کا مہینہ ہے ۔ پریشانی اورتکلیفوں پر صبر کیا جائے کہ یہ صبر ہی کا مہینہ ہے ۔ صدقہ وخیرات بکثرت کیا جائے کہ یہ ہمددری وتعاون کا مہینہ ہے ، گھروالوں ، رشتہ داروں ، غریبوں پر فراخی کی جائے کہ یہ رزق مین برکت کا مہینہ ہے لیکن خاص طور پر اس مہینہ کی مخصوص عبادتوں کی پابندی کرنا چاہیے جو تراویح ، روزہ اورا عتکاف ہیں ۔
تراویح ، اُس خاص نماز کو کہا جاتا ہے جو صرف رمضان المبارک کے مہینہ میں عشاء کی نماز کے بعد پڑھی جاتی ہے ، اِس کا تعلق صرف رمضان المبارک ہی سے ہے ۔ اگر اِس کو رمضان کے علاوہ دوسرے دِنوں میں پڑھا جائے تو وہ نفل نماز کہلائے گی ،تراویح نہیں ۔مقالات ِ کاظمی میں ہے :عظیم فقہی شخصیت حضرت لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا :’’ رمضان کی راتوں میں نماز باجماعت کا نام تراویح اِس لیے رکھا گیا کہ جب لوگوں نے جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا شروع کیں ، تو وہ ہر چار رکعت کے بعد اتنی دیر آرام کرتے تھے کہ اتنی دیر میں چار رکعت پڑھی جاسکیں ‘‘
یعنی تراویح کے معنی ’ آرام والی نماز ‘ ہیں کہ اِس میں ہر چار رکعت کے بعد تھوڑی دیر آرام کیا جاتا ہے ، یہ بیس رکعت نماز ، پورے رمضان پڑھنا سنت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِ س کو پڑھا بھی اور پسند بھی فرمایا ۔ جیسا کہ مؤطا امام مالک میں ہے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ نبی کریم ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی ، تو لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ پڑھی اور پھر دوسری رات اِسی طرح آپ نے نماز پڑھی ، پھر تیسری بار چوتھی رات آپ اُس نماز کے لیے باہر تشریف نہ لائے ( لوگ انتظار کرتے رہے ) پھر جب صبح ہوئی اور آپ ﷺ مسجد شریف میں تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے دیکھا جو تم ( رات ) کررہے تھے ۔‘‘ لیکن میں رات کو صرف اِس لیے باہر نہ آیا کہ ’’مجھے خطرہ ہے کہ کہیں (یہ نماز ) تم پر فرض نہ کردی جائے ۔‘‘
یہ واقعہ رمضان المبارک کا ہے جس سے واضح ہے کہ آپ ﷺ نے یہ نماز ادا فرمائی ، لوگوں نے اس کو پسند بھی کیا اور خود حضور ﷺ کو یہ اس قدر پسند تھی کہ آپ ﷺ کو یہ خیال ہونے لگا کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس کو امت پر فرض نہ کردے کیوں کہ شریعت نام ہی ہے حضور سرورِ کائنات ﷺ کی اداؤں کا اور آپ کی پسند، شریعت مطہرہ کا حصہ بن جاتی ہے ۔ کیوں کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری آسانی کا خیال فرمایا کہ اگر اب کوئی تراویح کو کسی دن کسی مجبوری کی وجہ سے چھوڑ دے تو قضا نہ کرنا پڑے گی اور نہ ہی اتنا گناہ ہو گا جتنا کسی فرض کو چھوڑنے کا ہوتا ہے تاہم حضور نبی رحمت ﷺ سے محبت کا تقاجا یہی ہے کہ ہر مسلمان آپ ﷺ کی اِس پسندیدہ نماز کی پابندی ، فرض ہی کی طرح کرے ۔
بہرحال تراویح کی ابتداء خود نبی کریم ﷺ نے کی اوراس کو جماعت سے ادا کرکے اس کے پڑھنے کا طریقہ بھی سکھا دیا اور اس کی پسندیدگی کو بھی ظاہر کردیا۔ تین یا چار دن کے اِس عمل کے بعد آپ ﷺ نے اس کو سب کے ساتھ مل کر نہ پڑھا ، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم الگ الگ یا تو مسجد میں پڑھا کرتے تھے اور یا اپنے گھروں میں ، یہ طریقہ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی جاری رہا اور پھر خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ لیکن چونکہ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ میں شریعت کے تمام احکام میں ایک نظم پیدا کیا اور ہر چیز پر حضور ﷺ کی منشاء کے مطابق آپ عمل کرانے کی کوشش فرماتے تھے ۔ لہٰذا جب رمضان المبارک کی ایک رات آپ مسجد تشریف لائے اور لوگوں کو علیحدہ علیحدہ تراویح ادا کرتے دیکھا تو آپ کو خیال ہوا کہ اگر میں ان سب کو ایک قاری( کی اقتداء ) پر جمع کردوں تو یہ سنت رسول ﷺ سے زیادہ مشابہ ہوگا۔ پھر آپ نے ارادہ پورا کیا اور سب کو (سیدنا ) اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع کردیا ۔
یعنی آپ نے اعلان فرمادیا کہ اب تراویح جماعت سے ہوا کرے گی اورا س کے امام سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ ہوں گے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے بہتر قرآن کریم پڑھا کرتے تھے آپ کے اِس حکم پر کسی نے اعتراض نہ کیا بلکہ تمام ہی صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کوپسند فرمایا اور سب جماعت سے یہ نماز اد ا کرنے لگے ۔دوسری رات امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جب تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مقررہ امام کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا ’’ یہ کتنی اچھی نئی رسم ہے ‘‘ ۔یہ واقعہ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے بیان کیا جو اس موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھے ۔
غرضے کہ پابندی سے تراویح ادا کرنے پر اجر وثواب کے علاوہ دوسرے فائدے بھی ہیں مثلاً دن بھر کی بھوک پیاس کے بعد ،افطار کے وقت کھانا کھانے سے طبیعت پر جو بھاری پن ہوجاتا ہے ۔ تراویح کے بعد وہ نہیں رہتا۔ نیز معدہ ہلکا ہوکر سحری کا کھانا قبول کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے جو صحت کے لیے نہایت ہی مفید ہے کیوں کہ بھاری معدہ پرمزید کھانا کھا لینا طبعی اعتبار سے صحت کے لیے نہایت مضر ہے ۔
خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اِ س مخصوص عبادت کے جمع ہونے اور اپنا مقدس کلام سننے کی توفیق بخشی ۔ ہمیں یقین ہے کہ رمضان کی برکت سے اس سنت کی ادائیگی کے بعد ہم سب جمع ہو کر جو دعامانگتے ہیں وہ ضرور قبول ہوتی ہے ۔لہٰذا اپنے لیے دعا کرنے کے ساتھ تمام اہل اسلام کے صحت وعافیت اورا یمان پر خاتمہ کی بھی کرلیا کیجئے ۔اللہ ہم سب کی اس عبادت کو قبول کرے ۔ آمین