عید ِسعید و قربانی کا وقت قریب آ گیا ہے۔ ہر مسلمان مقیم صاحب ِنصاب پر شرعاً قربانی واجب ہے، یہ قربانی سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت و یادگار ہے۔ چونکہ ابراہیم علیہ السلام کے خواب کو سچا کر دِکھانے پر رب تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ میں ذبیحہ (مینڈھا) عطا فرما کر انہیں بچا لیا تھا، اس لیے اب مسلمان ’’جانور‘‘ ذبح کر کے خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت کو پورا کرتے ہیں۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ فدیہ میں مینڈھا نہ بھیجتا اورحضرت اسماعیل علیہ السلام ہی کی قربانی ہو جاتی تو لوگوں پر قیامت تک اپنے بیٹوں میں سے ایک کی قربانی سنت ہو جاتی۔ ظاہرہے کہ اس صورت میں بھی سچے مسلمان اس سنت پر عمل کرتے اور بیٹے کو رضا ئے الٰہی کی خاطر ذبح کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے مگر جو غافل و ناعاقبت اندیش لوگ ہیں ان کے لیے بیٹا ذبح کرنا توبہت بڑی بات تھی آج اُنہیں چندروپوںکاجانورذبح کرنابھی شاق گزرتا ہے، حالانکہ یہ لوگ مسلمان کہلاتے ہیں۔ یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ آج بہت سے لوگ مسلمان کہلانے کے باوجود اسلامی احکام کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے، صرف دُنیا ہی ان کے پیش نظر ہے اور جو حضرات اِدھر توجہ کرتے بھی ہیں تو اُن میں سے بہت سے لوگ اپنی مرضی کی حد تک شریعت پر عمل کرتے ہیں اور احکام اسلامیہ شرعیہ کے روحانی فلسفہ، پاکیزہ مقاصد اور حقیقت و روح سے ناواقف رہتے ہیں، چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سے لوگ نماز تو پڑھتے ہیں مگر ان کے عقائد ہی غلط یا شکل و صورت، اخلاق و سیرت ،افعال و کردار شریعت کے خلاف ہوتے ہیں، حالانکہ ارشاد ہوتا ہے: ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر (الآیہ)’’ بے شک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بری بات (ممنوعاتِ شرعیہ) سے‘‘۔ معلوم ہوا جو لوگ بظاہر نماز تو پڑھتے ہیں مگر ان کے عقائد صحیح نہیں یا وہ خلافِ شرع حرکات سے باز نہیں آتے، وہ درحقیقت نماز کی برکات سے بے نصیب ہیں۔ اگر یہ لوگ صحیح معنی میں نماز پڑھتے، نماز کے مضامین کے مطابق عمل کرتے تو یقینا ان کے عقائد و اعمال درست رہتے، یہی صورتِ حال قربانی کے متعلق ہے کہ بہت سے مسلمان کہلانے والے قیمتی جانوروں کی قربانی تو کرتے ہیں مگر قربانی کا جو روحانی نتیجہ و ثمرہ نکلنا چاہئے وہ اُن کی قسمت میں نہیں ہوتا، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی صرف یہی ہے کہ جانور کا خون گرایا جائے اور گوشت کھایا کھلایا جائے، حالانکہ قربانی کا مقصد یہ نہیں۔
مولیٰ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے لن ینال اللہ لحومھاولَا دِمَاؤُھَا وَلٰکِنْ ینالہ التقویٰ منکم (الآیہ)’’اللہ کو ہرگز نہ اُن (جانوروں) کے گوشت پہنچتے ہیں نہ اُن کے خون، ہاں تمہاری پرہیزگاری اُس تک باریاب ہوتی ہے‘‘۔ معلوم ہوا کہ قربانی کی روح بھی تقویٰ ہی ہے لیکن یاد رکھئے کہ تقویٰ زبانی جمع خرچ کا نام نہیں، محض گوشت کھانے کھلانے اور خون گرانے سے رضائے الٰہی حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ جانور ذبح کرنے اور گوشت کھانے کھلانے کا سلسلہ تو لوگوں میں ہمیشہ ہی جاری رہتا ہے۔ جسمانی لذتوں، دنیاوی عیش و طرب اور خواہشاتِ نفس کی خاطر شب و روز جانور ذبح کئے جاتے ہیں، ایسے گوشت اور خون کو رضائے الٰہی سے کیا تعلق؟ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی تو اُسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب کہ بندہ تمام لذاتِ جسمانی اور خواہشاتِ نفسانی سے الگ ہو کر نہایت خوش دلی اور محبت کے ساتھ قیمتی اور نفیس جانور حکم خداوندی کے ماتحت اس کے نام پر ذبح کرے اور اس فعل کے ساتھ دل میں یہ جذبہ بھی موجود ہو کہ جس طرح ہم نے یہ جانور تیرے نام پر ذبح کیا ہے، اسی طرح ہم خود بھی تیری راہ میں قربان ہونے کے لیے تیار ہیں۔ یہی قربانی کی حقیقت ہے اور اسی کا نام آیۂ شریفہ میں تقویٰ رکھا گیا ہے۔ اب جو شخص بڑی محنت سے جانور پالے اور قیمتی جانور ذبح کرے لیکن اس کے عقائد و شکل و صورت اور اخلاق و سیرت میں تقویٰ کی کوئی جھلک اور پرہیز گاری کا جلوہ نظر نہ آئے اور دین و مذہب کی خدمت کے لیے کمر بستہ اور راہِ خدا میں قربان ہونا تو درکنار گھر بیٹھے آسانی سے شرعی اعمال و سنت کے مطابق افعال اختیار کرنا اس کے لیے مشکل ہو، وہ کھلم کھلا اسلام کے خلاف حرکات کا ارتکاب کرے اور معاشرہ کو خراب کرے اور پھر یہ سمجھے کہ مَیں قربانی سے عہدہ برآہ ہو چکا ہوں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے ،جو شخص سچے دل سے خلوصِ نیت کے ساتھ قربانی کرے ضروری ہے کہ اس کے اوپر تقویٰ و پرہیزگاری کا رنگ نظرا ٓئے۔
آئیے! ہم سب ہی عید ِقربان کے روز اس مقدس جذبۂ قربانی کی تجدید کریں، نہ صرف قربانی بلکہ ہر معاملہ میں دین ہی کو ترجیح دیں اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عظمت کے نشہ میں سرشار ہو کر اپنے رب قدیرجل جلالہٗ کے لیے اس کی راہ میں کٹ مرنے کا عہد و پیمان کر کے صحیح معنوں میں عید کریں۔
عید اُن کی ہے جو ہیں دین مبیں کے جاں نثار
دردِ ملت سے جو رہتے ہیں ہمیشہ بے قرار