سورۂ آلِ عمران : تعارف ومضامین
سورۂ آلِ عمران مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی ہے۔اس میں 20رکوع اور 200 آیتیں ہیں۔اِس سورت کا نام ’آلِ عمران‘ اِس لیے رکھا گیا کہ آل کا ایک معنی ’’اولاد‘‘ ہے اور اس سورت کے چوتھے اور پانچویں رکوع میں آیت33تا 54میں سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کے والد عمران کی آل کی سیرت اور ان کے فضائل کا ذکر ہے،اس مناسبت سے اس سورت کا نام’سورۂ آلِ عمران‘ رکھا گیا ہے۔
فضائل:اس سورت کے مختلف فضائل بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے 3فضائل درجِ ذیل ہیں۔
(1) سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی ٔاکرم خاتم النبیین ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن قرآنِ مجید اور اس پر عمل کرنے والوں کو لایا جائے گا، ان کے آگے سورۂ بقرہ اور سورۂ آلِ عمران ہوں گی۔ راوی فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے ان سورتوں کے لئے تین مثالیں بیان فرمائیں جنھیں میں آج تک نہیں بھولا، رسول کریم ﷺ ارشاد فرمایا: ’’یہ دونوں سورتیں ایسی ہیں جیسے دو بادل ہوں یا دو ایسے سائبان ہوں جن کے درمیان روشنی ہو یا صف باندھے ہوئے دو پرندوں کی قطاریں ہوں، یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کریں گی۔( صحیح مسلم)
(2)سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جو شخص رات میں سورۂ آلِ عمر ان کی آخری آیتیں پڑھے گا تو اس کے لیے پوری رات عبادت کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔‘‘(سنن دارمی)
(3) حضرت مکحول تابعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جو شخص جمعہ کے دن سورۂ آلِ عمران کی تلاوت کرتا ہے تو رات تک فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔‘‘(سنن دارمی)
مضامین: اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کی ولادت، ان کی پرورش، جس جگہ سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ملتا وہاں کھڑے ہو کر سیدنا زکریا علیہ السلام کا اولاد کے لئے دعا کرنا، سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کوسیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی بشارت ملنا، اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات و واقعات کا بیان ہے۔ اس کے علاوہ اس سور ت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں:
(1) اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، نبی کریم ﷺ کی نبوت اور قرآن کی صداقت پر دلائل دئیے گئے ہیں۔
(2) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول دین صرف اسلام ہے۔
(3)سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی شان کے بارے جھگڑنے والے، نبی کریم ﷺ کی نبوت کو جھٹلانے والے اور قرآن مجید کا انکار کرنے والے نجران کے عیسائیوں سے حضور پر نورﷺ کی ہونے والی گفتگو بیان کی گئی ہے۔
(4) میثاق کے دن انبیاء کرام علیہم السلام سے سیدُ المرسلین ﷺ کے بارے عہد لینے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(5) مکہ مکرمہ اور خانۂ کعبہ کی فضیلت اور اس ا مت کے باقی تمام امتوں سے افضل ہونے کا بیان ہے۔
(6)یہودیوں پر ذلت و خواری مُسَلَّط کئے جانے کا ذکر ہے۔
(7)جہاد کی فرضیت اورسود کی حرمت سے متعلق شرعی احکام اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سزا کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
(8)غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد کا تذکرہ اوراس سے حاصل ہونے والی عبرت و نصیحت کا بیان ہے۔
(9)امت کی خیر خواہی میں مال خرچ کرنے،لوگوں پر احسان کرنے اور بخل نہ کرنے کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔
(10) شہیدوں کے زندہ ہونے،انھیں رزق ملنے اور ان کا اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل ہونے پر خوش ہو نے کا بیان ہے۔
(11) اوراس سورت کے آخر میں زمین و آسمان اور ان میں موجود عجائبات اور اَسرار میں غورو فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے،نیزجہاد پر صبر کرنے اور اسلامی سرحدوں کی نگہبانی کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔
سورۂ بقرہ کے ساتھ مناسبت:سورۂ آلِ عمران کی اپنے سے ماقبل سورت ’’بقرہ‘‘ کے ساتھ کئی طرح سے مناسبت ہے، جیسے دونوں سورتوں کے شروع میں قرآنِ پاک کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ سورۂ بقرہ میں قرآنِ پاک نازل ہونے کا اِجمالی طور پر ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں قرآن مجیدکی آیات کی تقسیم بیان کی گئی ہے۔ سورۂ بقرہ میں جہاد کا اجمالی طور پر ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں غزوہ ٔ احد کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں جن شرعی احکام کو اجمالی طور پر بیان کیا گیا ہے انھیں سورۂ آلِ عمران میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔سورۂ بقرہ میں یہودیوں کا ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں عیسائیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
الغرض اِس سورت میں مسلمانوں کو اپنے مقام بلند اور فرض منصبی سے آگاہ کیا گیا ہے کہ تم خیر الامم ہو اور تمھاری خیرات وبرکات صرف اپنے لیے اور صرف اپنوں کے لیے لی نہیں بلکہ سب کائنات کے لیے ساری نوعِ انسانی کے لیے ہیں اور یہ منصب جتنا عظیم اور بلند ہے اُتنا ہی کٹھن اور دشوار ہے اِس لیے تمھیں باہمی اتفاق ومحبت کی ضرورت ہے تمھیں بہا لے جانے کے لیے حسد وعناد کے طوفان اُمڈ اُمڈ کر آئیں گے اگر تم نے اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے نہ پکڑے رکھا اور اخوت ِ اسلامی کے جذبہ سے سرشار نہ رہے اور آپس میں اختلافات شروع کردئیے تو نہ صرف یہ کہ تم اپنے منصب رفیع کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہ ہو سکو گے بلکہ تمھاری اپنی ناموس اور بقا خطر ہ میں پڑ جائے گی ۔