• قرآن کریم

سورۃ المائدۃ کا تعارف ومضامین


سورۃ المائدۃ،تعارف ومضامین 

سورۂ مائدہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے،البتہ اِس سورت کی آیت 3 حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ کے دن مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اوررسول کریم خاتم النبیینﷺ  نے خطبہ میں اِس آیت کی تلاوت فرمائی ۔اس سورت میں 16 رکوع، 120 آیتیں، 12464 حروف ہیں۔عربی میں دستر خوان کو ’’مائدہ‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر 112 تا 115 میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حواریوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے آسمان سے مائدہ یعنی کھانے کے ایک دستر خوان کے نزول کا مطالبہ کیا اور سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے مائدہ کے نازل ہونے کی دعا کی، اس واقعے کی مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ مائدہ‘‘ رکھا گیا۔
 فضائل:(۱۔)اس سورت کی ایک آیتِ مبارکہ کے بارے میں سیدناعمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا ’’اے امیر المؤمنین!رضی اللہ عنہ، آپ اپنی کتاب میں ایک آیت کی تلاوت کرتے ہیں، اگر وہ آیت ہم یہودیوں کے گروہ پر نازل ہوئی ہوتی تو (جس دن یہ نازل ہوتی) ہم ا س دن کو عید بناتے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’وہ کون سی آیت ہے؟ اس یہود ی نے عرض کی(وہ آیت سورۃ المائدہ کی تیسری آیت ہے) :’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔‘‘
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ہم اس دن اور اس جگہ کو بھی جانتے ہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی، (جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت) حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے دن عرفات کے میدان میں مقیم تھے (اور جمعہ و عرفہ دونوں مسلمانوں کی عید کے دن ہیں۔)(صحیح بخاری)
(۲)سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’جب حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سورۂ مائدہ نازل ہوئی اور اس وقت آپ ﷺ اپنی سواری پر سوار تھے تو سواری میں آپ ﷺ کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رہی اس لئے آپﷺ سواری سے نیچے تشریف لے آئے۔(مسند امام احمدبن حنبل )
۳۔حضرت مجاہدتابعی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم اپنے مَردوں کو سورۂ مائدہ اور عورتوں کو سورۂ نور سکھاؤ۔‘‘(شعب الایمان)
 مضامین:اس سورت کا آغاز تربیت اخلاق سے ہورہا ہے اِس لیے پہلے اِسی عنوان پر غور کریں ۔ اِس سورت میں مختلف اقسام کے اخلاقی سبق دئیے گئے ہیں جن کا تعلق جس طرح ایک قوم کی انفرادی اورا جتماعی زندگی سے ہے اِسی طرح اُن کا تعلق بین الاقوامی معاملات اور تعلقات سے بھی ہے۔ سب سے پہلے یہ حکم دیا جارہا ہے کہ جو وعدہ کرو اس کو پورا کرو ۔ خواہ یہ وعدہ نجی کاروبار کے متعلق ہو ، اپنے حلیفوں سے ہو یا حریفوں سے اورخواہ اپنے رب ذوالمجد والعلی سے ہو ۔
اِس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں یہودیوں اورعیسائیوں کے باطل عقائد و نظریات ذکر کر کے ان کا رد کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
1۔ مسلمانوں کو تمام جائز معاہدے پورا کرنے کا حکم دیاگیا اور ان جانوروں کے بارے میں بتایاگیا جو مسلمانوں پر حرام ہیں اور جو مسلمانوں کے لئے حلال ہیں۔
2۔ وضو،غسل اور تیمم کے احکام بیان کئے گئے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے اور ناانصافی کرنے سے بچنے کا حکم دیا گیا۔
3۔ بنی اسرائیل سے عہد لینے،ان کے عہد کی خلاف وزری کرنے اور اس کے انجام کو بیان کیا گیا۔
4۔بنی اسرائیل کا جَبّارین سے جہاد نہ کرنے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
5۔چوری کرنے اور ڈاکہ ڈالنے کی سزا کا بیان، شراب اور جوئے کی حرمت کا بیان، قسم کے کَفّارے کا بیان، احرام کی حالت میں شکار کے احکام۔ قرآن کے احکامات پر عمل کو ترک کرنے کی وعید، یہودیوں، عیسائیوں، منافقوں اور مشرکوں سے ہونے والی بحث کا بیان ہے۔
6۔مسلمانوں کو اپنی اصلاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اصلاح کا طریقہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کی جائے اور گناہ و سرکشی کے کاموں پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون حرام ہے، کفار کے ساتھ دوستی کرنا حرام ہے نیز گواہی کے متعلق فرمایا کہ گواہی دینے والا عادل ہو اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے اور مسلمانوں کے درمیان مساوات قائم کی جائے۔
7۔اللہ تعالیٰ کا دین ایک ہی ہے اگرچہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی شریعت اور ان کے طریقے مختلف تھے۔
8۔نبی کریم ﷺ کی نبوت پوری مخلوق کو عام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عام تبلیغ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
9۔عبرت اور نصیحت کے لئے اس سورت میں یہ تین واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں۔
(الف)سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا واقعہ۔(ب) سیدناآدم علیہ السلام کے دو بیٹوں قابیل اور ہابیل کا واقعہ۔(ج) سیدناعیسیٰ علیہ السلام کے معجزے ’’کھانے کے دستر خوان‘‘ کے نازل ہونے کا واقعہ۔