سورۃ الدھر کے مضامین ومعارف
سورہ دھر اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک نصیحت آموز سورت ہے جس کا موضوع انسان ہے۔ اس سورت کو فطرت کی یاددہانی کرانے اور انسان کو دنیا و مافیہا کی حقیقت سے آگاہ کرنے
لئے نازل کیا گیا۔ اسے بتایا گیا کہ قلزم ہستی سے عجب عجب کیفیات اور ماہیات سے گزارتے ہوئے وجود میں لانے کا مقصد کیا ہے۔ اسے خیر و شر کا شعوردے کر اسے دارالامتحان بھیجا گیااور اختیار دیا کہ وہ چاہے تو وہ دنیاوی آسائشوں اور اس کی رنگینوں میں بدمست ہو کر عذاب و عتاب کا موجب بن جائے اور چاہے تو اطاعت گزاری کرکے جنت کی نعمت و راحت کا مستحق قرار پائے۔
بنیادی تعارف
سورہ دھر قرآن کریم کی 76 ویں اور مکی سورت ہے جو کہ قرآن کریم کی 29 ویں پارے میں موجود ہے۔ ترتیبِ نزولی کے اعتبار سے اس کا نمبر 98 ہے۔ اس کا نام الدھر کے علاوہ الانسان بھی ہے یہ دونوں نام پہلی ہی آیت کے الفاظ ھل اتٰی علی الانسان اور حین من الدھر سے ماخوذ ہیں۔ یہ سورت 31 آیات،2 رکوع، 243 الفاظ اور1089 پر مشتمل ہے۔
فضیلت وعظمت
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز نماز فجر (کی پہلی رکعت)میں سورہ السجدہ اور(دوسری رکعت میں) سورہ الدھر کی تلاوت فرماتے اور جمعہ کی نماز میں سورہ الجمعہ اور سورہ المنافقون کی تلاوت فرماتے تھے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تلاوت فرمائی تو اس وقت آپ کے پاس ایک سانولے رنگ کے صحابی بیٹھے ہوئے تھے۔ جب جنت کی صفات کا ذکر آیا تو ان کے منہ سے بیساختہ ایک چیخ نکلی اور ساتھ ہی روح پرواز کر گئی۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے ساتھی اور تمہارے بھائی کی جان جنت کے شوق میں نکل گئی۔
مضامین و معارف:
سورۂ دہر کے مضامین و معارف درج ذیل ہیں جو کہ بالترتیب بیان کیے گئے ہیں
انسان کی تخلیق و مقصد تخلیق:سورہ دھر پہلی تین آیات میں اللہ تعالیٰ نیانسان کی تخلیق اور عدم سے وجود میں آنے کیفیت کو بیان کہ ایک ایسا وقت بھی تھا کہ جب انسان کی ذات کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے مخلوط نطفے سے اس کی تخلیق کی ابتداء یوں فرمائی کہ اس کی ماں کو بھی خبر نہ ہوسکی کہ اس کے وجود کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اور کوئی بھی اس حقیر شئے کو دیکھ کر یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ مستقبل میں اسے اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز ملنے والا ہے۔پھر فرمایا جب ہم نے انسان کو پیدا کردیا تو چاہا کہ ہم اسے مکلف کرکے اپنے اوامر و نواہی کے ذریعے اس کا امتحان لیں، سو ہم نے اسے دیکھنے اور سننے والا بنا دیا تاکہ وہ آیات و دلائل کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان میں تفکر و تدبر کر سکے۔پھر ہم نے اسے حواس ظاہریہ و باطنیہ اور عقل سلیم سے نواز کر، کتاب و رسول عطا کرتے ہوئے سیدھا راستہ دکھا دیا اب انسان کے پاس اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اطاعت کرتے ہوئے شکرگزار بن جائے اور چاہے تو ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے کافر بن جائے۔
اچھوں اور بروں کا انجام:آیت نمبر 4 میں حق و باطل کے درمیان فرق واضح ہونے کے بعد بھی پیغامِ الہی کو جھٹلانے والوں کے متعلق وعید بیان فرمائی کہ اس کے لئے آخرت میں زنجیریں تیار کی گئیں ہیں جنہیں ان کے گلے میں ڈال کر نار جہنم میں گھسیٹاا جائے گا۔ آیت 5 سے لیکر 22 تک ان کے مقابلہ میں دارالامتحان میں کامیاب ہونے والوں یا نیک، پرہیزگار اور ایمان یافتہ لوگوں پر ہونے والی عطایا اور انعامات کا ذکر فرمایا اور ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا کہ کن وجوہات کی بنیاد پر نوازشات کی برسات ہوگی اور کس کس انداز میں ہو گی۔اگر اس سورہ کی روشنی میں ان نیکوکاروںکی خصوصیات کو دیکھا جائے تو وہ فرائض کے علاوہ مزید عبادات کرنے والے،قیامت سے ڈرنے والے،دوسروں کو کھانا کھلانے والے اور صبر کرنے والے ہیں۔ اور ان صفات کے حاملین کے انعامات یہ ہیں: ان کے لئے جنت میں کافوری جام،سلسبیل، متنوع پھل، چاندی شیشے کے برتن، ریشمی لباس، چاندی کی کنگن، گرمی و سردی سے محفوظ قیام گاہ اور خدام ہوں گے۔ جس وقت وہ جنت میں داخل ہوکر نعمائِ الہیہ کا مشاہدہ کرتے ہوئے محو ِحیرت ہوں گے تو انھیں کہا جائے گا کہ یہ تمہاری محنت کا صلہ اور جزاء ہے۔
نزول قرآن کی حکمتیں:آیت نمبر 23 میں اللہ رب العزت نے فرمایا: اے نبی! ہم نے ایک ہی بار مکمل نہیں بلکہ بتدریج تھوڑا تھوڑا کر کے یہ قرآن کریم نازل فرمایا،اب اس اکرام میں آپ کو بھی چاہئے کہ ہماری راہ میں صبر و ضبط سے کام لیں، ہماری قضا و قدر پر صابر شاکر رہیں۔ اور ہم ہی جانتے ہیں اس حکمت کا تقاضا کہ جو کفار قران کو کہانت اور جادو کہتے ہیں آپ ان کے اعتراضات کی پروا نہ کریں۔ یہ قرآن ہماری طرف سے وحی اور برحق ہے لہذا آپ کافروں کی باتوں سے دلبرداشتہ نہ ہوں کیونکہ آپ سچے نبی ہیں۔
کفار کی پیروی نہ کرنے کی تلقین:جب عتبہ بن ربیعہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبلیغِ دین چھوڑنے کے لئے اپنی بیٹی کے نکاح کی پیشکش کی تو ا س کے جواب میں آیت نمبر: 24 تا 26 نازل ہوئی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مطلع کیا گیا کہ آپ کو راہِ حق میں خواہ کتنی ہی مشقتیں کیوں نہ برداشت کرنی پڑیں یا کتنا ہی لالچ دے کر مداہنت اور سمجھوتہ کی راہ ہموار کی جائے تو آپ بس اپنے رب کے حکم پر ثابت قدم رہئے،اور صبر کیجیے۔ آپ پر جتنے بھی صعوبتوں کے پہاڑ ٹوٹیں آپ بس پامردی کیساتھ ڈٹے رہیے اور اپنے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے دیجئے۔ جس قدر ممکن ہو ہر لمحہ ہر کھڑی خواہ دن ہو یا رات اللہ کے ذکر کو حرزجاں بنائیے، کیونکہ یہی وہ سبب ہیں ہے کہ جس کی بدولت کفر کی طغیانی میں اہل اللہ کے دل مضبوط ہوتے ہے۔
کفار کی پیروی نہ کرنے کی علت:آیت نمبر:27، 28 میں کفار کے دین حق کو نہ ماننے اور کفر پر ڈھٹائی اختیار کی وجہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی کہ یہ جلد ختم ہوجانے والی دنیا پہ فریفتہ ہو چکے ہیں، اسکی دلفریبیوں، دلکشیوں اور اس کے مال و دولت پر جان چھڑکتے ہیں اور اسے آخرت پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے پیچھے ایک بھاری دن کو چھوڑ بیٹھے ہیں کہ جو سختیوں، ہولناکیوں اور تکالیف سے بھرپور ہے۔ اور ساتھ انھیں متنبہ کیا گیا کہ تم محاسبہ کرو کہ تمہارا یہ وجود کسی ذات کی مرہونِ منت ہے کہ جس نے تمہیں ناپاک نطفے سے پیدا کیا ہے اور تمہیں سلیم الاعضاء بنایا ہے تاکہ تم اٹھ، بیٹھ سکو، پکڑ سکو، چل پھر سکو۔ جس ہستی نے یہ سب بنایا ہے اس کے پاس اختیار ہے کہ وہ جب چاہے تمہیں ہلاک کردے اور تمہاری جگہ کسی اور کو لے آئے۔
حرف آخر
آخری تین آیات میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کہ یہ سورت انسان کے لئے ایک نصیحت ہے تو جو چاہے اس سے راہِ ہدایت کو پالے۔اور دو ٹوک بتا دیا کہ اس دنیا میں کسی کی چاہت کا کوئی اعتبار نہیں صرف وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ ماکان و یکون اسی کی مشیت پر موقوف ہے۔اور اسکی مشیت کوئی اندھا دھند نہیں بلکہ حکمت و دانائی پر مبنی ہے۔وہ جسے چاہے گا جنت میں داخل فرمائے اور ظالموں دردناک عذاب دے کیونکہ یہ اسی کی شان کے لائق ہے۔