سورۂ اعراف : تعارف ومضامین
اعراف کا معنی ہے بلند جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف‘‘رکھا گیا۔یہ سورت 206آیات اور 20رکوع پر مشتمل ہے ۔ یہ سورت مکمل مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اگرچہ بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اِس سورت کی پانچ یا آٹھ آیات مدینہ منورہ میںنازل ہوئیں۔
فضیلتـ:ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ ‘‘(مستدرک حاکم )
ان سات سورتوں میں سے ایک سورت اعراف بھی ہے۔
مضامین:یہ مکی سورتوں میں سب سے بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ کہ اس میں انبیائِ کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے حالات اور انھیں جھٹلانے والی قوموں کے انجام کے واقعات بیان کر کے اس امت کے لوگوں کو ان قوموں جیسا عذاب نازل ہونے سے ڈرانا، ایمان اور نیک اعمال کی ترغیب دینا ہے۔ نیز اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کے وجود، وحی اور رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء ملنے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
۱۔قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی نعمت ہے اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کی پیروی ضروری ہے۔
۲۔قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور کیا جائے گا۔
۳۔دوبارہ سیدنا آدم علیہ السلام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا، اس میں سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق، فرشتوں کا انہیں سجدہ کرنا، شیطان کا سجدہ کرنے سے تکبر کرنا، شیطان کا مردود ہونا، سیدنا آدم علیہ السلام کے ساتھ اس کی دشمنی اور سیدناآدم علیہ السلام کی جنت سے زمین کی طرف آمدکا بیان ہے۔
۴۔ کفار ومشرکین کے اخروی انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
۵۔قیامت کے دن ایمان والوں کے حالات، جہنمیوں اور اَعراف والوں سے ہونے والی گفتگو اور اہلِ جہنم کی آپس میں کی جانے والی گفتگو کابیان ہے۔
۶۔اللہ تعالیٰ نے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے وجود اور اپنی وحدانیت پر استدلال فرمایا ہے۔
۷۔اس سورت میں سیدنا آدم علیہ السلام کے واقعے کے علاوہ مزید یہ7واقعات بیان کئے گئے: (1) سیدنا نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کاواقعہ۔ (2)سیدنا ہود علیہ السلام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (3) سیدنا صالح علیہ السلام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (4) سیدنا لوط علیہ السلام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (5) سیدنا شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (6) سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ۔ (7) سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور بلعم بن باعور کا واقعہ۔
(8)اس سورت کے آخر میں شرک کا تفصیلی رد، مَکارمِ اخلاق کی تعلیم، وحی کی پیروی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے۔
ٓٓاب تمام واقعات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ احکام الہٰی سے دانستہ اور پیہم سرکشی ، بے پناہ قوت واختیار کا خمار اور ایسے ہی غلامانہ زندگی افراد واقوام کے ذہنوں کو بگاڑ دیتی ہے اور انبیائے کرام کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ان بگڑی ہوئی ذہنیتوں کی اصلاح کی جائے تاکہ ایک ایسا معاشرہ معرض ِ وجود میں آجائے جو طاقت ور ہونے کے باوجود انصاف پرست ہو ۔ نظم وضبط کا پابند ہونے کے باوجود غلامانہ بے بسی کا شکار نہ ہو اور اس میں حقوق اور فرائض کے ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہوں لیکن جو بدنصیب اللہ کے پیغمبروں کی مشفقانہ پندوموعظت کو قبول نہیں کرتا اور اپنی گمراہی پر بضد رہتا ہے تو مکافات عمل کا قانون اُسے پیس کر رکھ دیتا ہے اور اُن کا نام ونشان تک صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا ہے ۔