• اولیائے کرام علیہم الرحمۃ

اعلی حضرت امام الشاہ احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ

اعلیٰ حضرت ،امام اہلسنّت ، مجدد ِ دین وملت ، پیکر علم وعمل
امام الشاہ احمد رضاخان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ 
عصر حاضر میں امام احمد رضا خان قادری بریلوی علیہ الرحمۃ کے فکری و علمی اثاثے سے استفادہ ناگزیر ہے۔
تحریر: صاحبزادہ سید وجاہت رسول قادری



 



آج پاکستانی معاشرے میں جو افراتفری، معاشی بدحالی، سیاسی طوائف الملوکی، بدامنی، شدّت پسندی، دہشت گردی اور ایوانِ حکومت میں اونچی سطح سے لے کر نچلی سطح تک بدعنوانی کا جو عالم ہے، اُس سے ہر محبِّ وطن امن پسند شہری پریشان ہے۔ ہمارے نااہل، بددیانت اور بدکردار حکمرانوں نے ملک کا یہ حال کردیا ہے کہ اب اسلام دشمن قوتیں امریکہ و یورپ، خاکمِ بدہن، اس سب سے بڑے اسلامی ممالک کو توڑنے یا اس کے اہم اثاثوں پر قابض ہونے کے لیے پر تول رہی ہیں اور محبِّ وطن افراد دل گرفتہ، افسردہ اور حالات سے مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ہمارے روشن ماضی کے جھروکوں سے امید کی ایسی تابندہ کرنیں جھلملاتی نظر آتی ہیں کہ جن پر نظر پڑتے ہی مستقبل کے خطرات کے بادل چھٹتے نظر آنے لگتے ہیں۔
آج سے قبل بھی ہر دور میں کفار و مشرکین اور یہود و نصارٰی کی یلغار اور مسلمانوں کی صفوں میں موجود منافقین اور خوارجِ زمانہ کی درونِ خانہ سازشوں سے عالمِ اسلام کو واسطہ پڑتا رہا ہے۔ لیکن ہر دورِ ابتلا میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسے مصلحین ِاُمت پیدا فرمائے ہیں جنہوں نے شریعت و طریقت کے اصولوں کو برتتے ہوئے تعلیم و تعلّم اور تذکیر و وعظ کے ذریعے اصلاحِ معاشرہ کی سعی فرمائی اور مسلمانوں کے سیاسی غلبہ اور اسلام کی عظمتِ رفتہ کو بحال کیا۔
اب جب کہ حضور خاتم النبیین سیّدنا و مولانا محمد رّسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ تو اب ایسی صورت میں اصلاحِ اُمت کا فریضہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق آپ کی اُمّت کے علما و مشائخ ہی انجام دیں گے۔
ایک مستشرق پروفیسر اے·ایچ·کب (1962ء) اپنی ایک کتاب اسلامک کلچر میں اسلامی تعلیمات کی حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے:’’تاریخِ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدّت سے مقابلہ کیا گیا، لیکن بایں ہمہ وہ مغلوب نہ ہوسکا۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ صوفیا کا اندازِ فکر فورًا اس کی مدد کو آجاتا تھا اور اس کو اتنی قوت و توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔‘‘( بہ حوالہ: اسلامی معاشرے کی تشکیل میں امام احمد رضا بریلوی کا کردار، سلیم اللہ جندران، معارفِ رضا خصوصی شمارہ برائے امام احمد رضا کانفرنس2000، ص:40)
اسلامی عمرانیات کے ماہرین نے اسلامی معاشرے کی کم و بیش دس امتیازی خصوصیات شمار کی ہیں:۱۔ وحدتِ انسانی ۲۔ وحدتِ فکرِ انسانی
۳۔ اتحادِ عملی ۴۔ احترامِ انسانیت۵۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ۶۔ عدل و مساوات کی الہامی اصولوں پر بنیاد۷۔ خدا پرستی ۸۔ محبت و اطاعتِ رسول۹۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ،۱۰۔ شرفِ انسانیت کی بقا
تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ جب بھی اسلامی معاشرے کے مذکورہ بالا عناصر کا توازن بگڑا یا انحطاط اور کمزوری پیدا ہوئی، اسلامی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا اور یہ بگاڑ جس قدر طویل ہوتا گیا، اسی اعتبار سے معاشرہ سنگین بحران سے دوچار ہوا۔ اس کی اپنی کمزوریوں کی بِنا پر اسلام دشمن قوتوں کو فکری اور ثقافتی یلغار کا موقع ملا۔ سانحہ کربلا، واقعہ حرّہ، سقوطِ بغداد، سقوطِ غرناطہ (اسپین)، سلطنتِ عثمانیہ کی شکست و ریخت، برصغیر جنوبی ایشیا سے اسلامی سلطنت کا خاتمہ، حجازِ مقدس پر قرن الشیطان کے پجاریوں کا قبضہ اور قبلہِ اوّل بیت المقدس پر یہودیوں کا غلبہ، ماضی قریب میں سقوطِ ڈھاکا کا شرم ناک واقعہ اور مسلمانانِ عالم کو بہت سے دیگر صدمات اسلامی معاشرے کے اسی انحطاط یا بگاڑ کا نتیجہ تھے۔
دنیا بھر کے معاشروں کی طرح پاکستان کے اسلامی معاشرے کے افراد بھی چاہتے ہیں کہ ان کا معاشرہ سدا زندہ و سلامت رہے، پھلتا پھولتا رہے، معاشرے میں خوش حالی اور سیاسی استحکام کا دور دورہ رہے، مسجدیں، مدرسے، خانقاہیں اور دوسرے دینی، مذہبی، تعلیمی ادارے آباد رہیں، ان کے افکار و نظریات، عقائد و روایات ترقی پذیر رہیں، علوم و فنون میں وسعت اور ارتقا پذیری پیدا ہو، تمدنی ورثے کو استحکام حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو۔ لیکن یہ جب ہی ممکن ہے کہ جب ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے خیالات و افکار، جذبات و احساسات اور تہذیبی و تمدنی ورثے سے آگاہ کرتے رہیں اور اس کا بقول جسٹس ایس۔اے رحمٰن، ایک ہی طریقہ ہے، (صحیح خدوخال پر) تعلیم و تربیت کا اجرا و ارتقا۔(نظریہِ پاکستان اور نصابی کتاب، ص:185، بہ حوالہ مذکورہ بالا)
اہلِ علم و بصیرت اور علماے حق اس بات سے یقیناً اچھی طرح واقف ہیں کہ اس وقت ہماا ملک جس سنگین سیاسی، معاشی و معاشرتی بحران کی لپیٹ میں ہے، اس سے اسلامی معاشرے کے جملہ مذکورہ عناصر نہ صرف انحطاط کا شکار ہیں بل کہ ان میں بعض بالکل غیر فعال اور بعض مفقود ہوچکے ہیں۔ حکمرانِ وقت (سلطان) کے احکام کی عمل درآمد (WRIT) ملک کے ایک وسیع حصے سے تقریبًا ختم ہوچکی ہے۔ اس لیے اس وقت سب سے بڑا بحران ملک کی قیادت کا ہے جسے کتبِ فقہ میں ’’عدمِ سلطان کی حالت‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ایسی صورتِ حال میں قرآنِ حکیم ہمیں اصلاحِ احوال کے لیے جس اَمر کے لیے حکم دیتا ہے، ہمارے حکمرانوں اور ذی علم و ذی شعور افراد کا اُس کی بجاآوری کی طرف رجوع لازم ہوجاتا ہے۔’’اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور رسول کا اور ان کا جو تم میں صاحبِ امر ہیں۔‘‘( سورۃ النساء)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان قادری محدثِ بریلی قدس سرہ السامی فرماتے ہیں کہ یہاں ’’اولی الامر‘‘ سے مراد علما ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور کاش وہ (ایسے بحرانی اور نزاعی حالات میں) اسے لوٹائیں۔ رسول کی طرف اور اپنے ذی اختیار لوگوں (اولی الامر) کی طرف تو ضرور ان سے ان کی حقیقت جان لیں گے وہ جس کی استنباط کرتے ہیں ان میں سے۔ ( فتاوٰی رضویہ جدید، ج14) پھر اعلیٰ حضرت ’’اولی الامر‘‘ کی تعریف سے متعلق اپنے موقف کی مزید وضاحت اور اُس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’عدمِ سلطان کی حالت میں مسلمانوں پر اپنے امورِ دینیہ میں متدین معتمد علماے اہلِ سنّت کی طرف رجوع کرنا اور بھی لازم تر ہوجاتا ہے کہ بعض بعض خاص دینی کام جنہیں ولاۃ و قضاۃ اُٹھائے ہوئے ہیں، ان میں تاحدِّ ممکن انہیں کے حکم سے تعمیل کرنی ہوتی ہے۔‘‘(فتاوٰی رضویہ جدید، ج:14)
چناں چہ خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کے دورِ ہمایونی کے بعد قرآنی اصطلاح ’’اولی الامر‘‘ کے معیار پر پوری اُترنے والی جامع اور نابغہِ عصر شخصیات کی ایک اچھی خاصی تعداد ہر دور اور ہر خطہِ ارض میں موجود رہی ہے، جنہوں نے اپنے اپنے دور کے حالات اپنے اپنے خطوں میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ، تجدیدِ احیاے دین، اصلاحِ معاشرہ اور علمِ نافع اور نفع بخش فنون کے فروغ میں اقباؔل کے ’’صاحبِ امروز‘‘ مردِ مومن کا کردار ادا کیا ہے۔ طوالت کے خوف سے اُن سب کے اسم ہاے گرامی یہاں ضبطِ تحریر میں نہیں لائے جاسکتے۔
 اس لیے مثالاً چند ذواتِ مقدسہ کے نامِ نامی تحریر کیے جارہے ہیں۔ سیّدنا امام عالی مقام حسین، سیدنا امام جعفر صادق، سیدنا عمر بن عبدالعزیز، سیدنا امامِ اعظم امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت، امام شافعی، امام مالک، امام حنبل،سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی، امام غزالی، امام رازی، امام سیوطی، حضرت بہاء الحق نقشبند قدست اسرارہم، اور برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں حضرت مجدِّدِ الف ثانی، محققِ علی الاطلاق حضرت شیخ عبدالحق محدثِ دہلوی، حضرت اورنگ زیب عالم گیر، حضرت شاہ ولی اللہ محدثِ دہلوی، حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی، حضرت فضلِ حق خیرآبادی، حضرت فضلِ رسول بدایونی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم، اور ماضیِ قریب میں اعلیٰ حضرت، مجددِ دین و ملت امام احمد رضا خاں محدثِ بریلوی قدس سرہ السامی۔
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمۃ چودھویں صدی ہجری میں سلف صالحین کے سچے جانشین اور اکابر مصلحین  ِامت رحمہم اللہ تعالیٰ کے علمی ورثے اور ان کے دینی، مذہبی، مسلکی، تعلیمی، سیاسی، اقتصادی افکار و نظریات کے اَمین تھے۔ اس کا اعتراف ان کے ہم عصر اور آج کے دور کے بعض اُن علما نے بھی کیا ہے جو متعدد مسائل میں ان سے نظریاتی اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ آپ کے ایک ہم عصر نام وَر عالم، مورخ و مصنّف، شیخِ طریقت جناب خواجہ حسن نظامی صاحب، فاضلِ دیوبند فرماتے ہیں:’’ان (مولانا احمد رضا) کی تصنیفات و تالیفات کی خاص شان اور خاص وضع ہے۔ یہ کتابیں بہت زیادہ تعداد میں ہیں جن کو دیکھ کر لکھنے والے کے تبحّرِ علمی کا جیّد سے جیّد مخالف کو بھی اقرار کرنا پڑتا ہے۔مولانا احمد رضا خاں صاحب جو کہتے ہیں، وہی کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی خصلت ہے جس کی ہم کو پیروی کرنی چاہیے۔‘‘(ملاحظہ ہو: ہفت روزہ ’’خطیب‘‘ دہلی، ۲۲مارچ۱۹۱۵ء، ج:۱، شمارہ:۱۱، ص:۱۷۳)
یہاں یہ بات بھی واضح ہوجائے کہ جناب خواجہ حسن نظامی صاحب کی اس حسنِ عقیدت کے باوجود جب انہوں نے طبقہِ صوفیا میں سجدہِ تعظیمی کے جواز پر ایک رسالہ لکھا، تو امام احمد رضا محدثِ بریلوی علیہ الرحمۃ نے فورًا اُس کے ردّ میں ایک فاضلانہ و محققانہ رسالہ بہ عنوان ’’الزبدۃ الزکیۃ لِتَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّہ‘‘ تحریر فرمایا جس میں اپ نے غیر اللہ کے لیے سجدہِ عبادت کو کفر و شرک اور سجدہِ تعظیمی کو حرامِ قطعی قرار دیا۔ ایسا کرتے وقت حضرت امام احمد رضا خان قادری نے جناب خواجہ صاحب کی اپنے بارے میں حسنِ عقیدت کی کوئی رعایت نہیں برتی، غالباً خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنے تبصرے میں امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمۃ کی جو امتیازی خصوصیت بیان فرمائی ہے کہ وہ ’’جو کہتے ہیں، وہی کرتے ہیں‘‘، اس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔
حکیم عبد الحی لکھنوی (والدِ علامہ ابو الحسن علی میان ندوی) کا امام احمد رضا سے مسلکی اختلاف ڈھکا چھپا نہیں، لیکن جب انہوں نے امام صاحب کے فتاوٰی کا مطالعہ کیا تو انہوں نے محدثِ بریلوی علیہ الرحمۃ کو اِن الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا:’’فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر ان کو جو عبور حاصل ہے، اس کی نظیر شاید ہی کہیں ملے۔‘‘(نزہۃ الخواطر، ج:۸، ص:۴۱)
    دیکھا جائے تو یہ امام صاحب کی فقاہت اور علمیت کو ایک بڑا خراجِ تحسین ہے کیوں کہ ایسی عالم فاضل شخصیت جس کی فقہ کی جزئیات پر دست رَس کا یہ عالَم ہو کہ عرب و عجم میں اس کی نظیر نہ ملتی ہو، یقینًا امام العصر، فرید الدہر، نابغہ ِ روزگار، مجدّدِ ملّت، مجتہد فی المسائل کہلانے کی مستحق ہے۔ کیوں کہ ایسی شخصیت کو نہ صرف قرآن و حدیث سے مستنبط مسائل مستحضر ہوتے ہیں، تمام علومِ اسلامی پر اس کو دستگاہ حاصل ہوتی ہے، بل کہ تمام عصری علوم، سیاستِ مدن، لوگوں کے رسم و رواج، مزاج، زبان و اطوار و عادات، معاشی اور معاشرتی مسائل سے اُس کو بہ خوبی آگاہی ہوتی ہے۔ اس لیے عوام و خوص، سب اپنے دینی اور دنیوی معاملات میں رہ نمائی اور مسائل کے حل کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ بلاشبہ علامہ اقباؔل کی زبان میں امام احمد رضا ایک ایسی ہی ’’صاحبِ امروز‘‘ شخصیت تھے اور اس کا اعتراف خود علامہ اقباؔل نے اِن الفاظ میں فرمایا کہ ’’مولانا ایک دفعہ جو راے قائم کرلیتے تھے، اُس پر مضبوطی سے قائم رہتے تھے، یقینًا وہ اپنی راے کا اظہار بہت غور و فکر کے بعد کرتے تھے۔۔۔ وہ اپنے دور کے امام ابوحنیفہ ثانی تھے۔‘‘
ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضاؔ مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں
(داؔغ دہلوی)