سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ کی عظیم روحانی شخصیت ، شمس العارفین
حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ
ڈاکٹرعطا المصطفیٰ مظہری
تیرہویں صدی ہجری کے چھٹے عشرے میں شمس العارفین حضرت خواجہ شمس الدی سیالوی قدس سرہ نے سیال شریف میں ایک خانقاہ چشتیہ نظامیہ کی بنیاد رکھی، خانقاہِ مقدسہ سیال شریف سے سینکڑوں نابغہ روزگار شخصیات وابستہ ہوئیں جن سے سلسلہ چشتیہ کو مزید فروغ ملا، خانقاہ سیال شریف میں لوگوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کے لیے منظم اہتمام کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ مسلمانانِ پنجاب میں ملی شعور اجاگر کرنے کا فریضہ بھی سر انجام دیا، خلفائے پیر سیال نے مسلمانوں میں وحدت ملی، اتحاد و اتفاق، عقائد کی پختگی اور اسلامی تشخص جیسے ملی و اسلامی تصورات کو اجاگر کیا، چشمہء سیال سے جاری ہونے والی روحانی تربیت گاہیں پنجاب میں اس قدر تیزی سے پھیلیں کہ پورا پنجاب ان سے مستفید ہونے لگا، ذیل کی سطور میںآپ کی مساعی ٔ جمیلہ اور احوال وآثار کو مختصراً پیش کیا جاتا ہے ۔
ولادتِ باسعادت ، تعلیم و تربیت : حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادتِ باسعادت 1214 ھ بمطابق 1799ء بمقام سیال شریف ہوئی، آپ کے والد حضرت میاں محمد یار علیہ الرحمۃ نے آپ کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی ۔7سال کی مختصر عمر میں قرآن پاک حفظ کیا ،ابتدائی فارسی کتب اپنے ماموں میاں احمد الدین علیہ الرحمۃ سے مکھڈ شریف پڑھیں ۔ صرف و نحو ، منطق اور دیگر درسی کتب حضرت مولانا محمد علی مکھڈی کے ہاں 13سال کی مدت میں پڑھیں۔ فقہ و فلسفہ کی مزید کتب مولانا حسن دین سے موضع اخلاص رہ کر پڑھیں۔ مزید تحصیل علم کے لئے کابل تشریف لے گئے اور وہاں سے سند حدیث مولانا غوث محمد سے حاصل کی۔ شہنشاہِ تصوف حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہ کر تصوف کی چند کتابیں پڑھیں جن میں لوائح جامی ، لمعات عراقی، شرح لمعات جامی، کشکول کلیمی اور مرقع کلیمی قابل ذکر ہیں۔
اساتذہ کرام:(۱۔)حضرت میاں احمد الدین ،(۲۔)حضرت میاں محمد افضل (م 1835 ء) (۳۔)حضرت مولانا محمد علی مکھڈوی( مکھڈ شریف) (۴۔)حضرت مولانا حسن دین (م 1821ء ) ( ۵۔)حضرت حافظ دراز کابلی ( کابل، افغانستان)(۶۔)حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی ( تونسہ مقدسہ)
اجازتِ بیعت و خلافت:خواجہ شمس العارفین رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی علیہ الرحمۃ کے دست ِمبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیااور اپنے مرشد کریم کی خدمت میں 14سا ل کا طویل عرصہ گزارا ، اس کے علاوہ 40سال تک مسلسل تونسہ مقدسہ کی طرف مسافر رہے جب گھر واپس آتے تو بے قرار ہوجاتے اور پھر روانہ ہوجاتے چنانچہ آمد و رفت کی کثرت سے تھل کے ریگستانوں میں ایک علیحدہ راستہ بن گیا، کیونکہ آپ عام لوگوں کی گزرگاہ پر نہیں آتے جاتے تھے۔ایک مرتبہ حضرت خواجہ تونسوی تشریف فرماتھے، طالبان ِدید کا ہجوم تھا اسی اثناء میں ایک نورانی صورت بزرگ آئے اور کچھ دیر خواجہ صاحب سے محو گفتگو ہوکر رخصت ہوگئے ، خواجہ شاہ سلیمان نے مصاحبین کو فرمایا کہ جس شخص کے دل میں حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کا شوق ہو وہ جائے اور زیارت کرے یہی حضرت خضر علیہ السلام تھے جو ابھی مجلس سے اُٹھ کر گئے ہیں ۔ حاضرین مجلس حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کے لئے دوڑ پڑے لیکن خواجہ شمس العارفین رحمۃ اللہ علیہ وہیں بیٹھے رہے ، حضرت خواجہ تونسوی رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے ’’مولوی صاحب کیا آپ حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کی خواہش نہیں رکھتے ؟‘‘آپ نے جواب دیا ،’’میں تو اُس کی زیارت کروں گا جس کی زیارت کے لئے حضرت خضر علیہ السلام آتے ہیں‘‘ ۔اس پر خواجہ شاہ سلیمان تونسوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا: ’’رب سائیں میڈے سیال کوں رنگ لائیں‘‘ اس دعا کا یہ اثر ہوا کہ شرق و غرب سے لوگ کسب فیض کے لئے پروانہ وار سیال شریف آنے لگے۔
فروغ ِ علم میں خواجہ شمس العارفین کی خدمات:انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں سیال شریف کے علاقہ کو حضرت شمس العارفین سیالوی قدس سرہ سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا، آپ کی علمی و روحانی تابانیوں سے نہ صرف برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کے سینے منور ہوئے بلکہ دیگر ممالک مثلاً افغانستان اور روس کے کئی متلاشیان کو بھی کسب فیض کا بہترین موقع ملا۔ شریعت و طریقت کے اس شمس بازغہ نے اپنی علمی ، فکری ، روحانی تعلیمات کی وسیع پیمانے پر مؤثر تبلیغ کے لئے سیال شریف کے مقام پر 1360ھ یعنی 1844 ء میں ایک عظیم الشان اسلامی درس گاہ قائم کی جس کے چشمہ فیض سے مقامی و دور دراز کے طالبان حق اپنی اپنی علمی و روحانی پیاس بجھاتے رہے۔ وصال کے بعد ان کے فرزند ارجمند حضرت ثانی خواجہ محمد الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ( م1909ء) اور ان کے بعد ان کے فرزند مجاہد ملت حضرت خواجہ ضیا الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ(م 1929ء)نے اپنے اپنے دور میں اس ادارہ کی عمدہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے اسے ترقی کے ان منازل تک پہنچایا کہ ہم عصر مدارس میں ایک خاص امتیازی حیثیت حاصل ہوگئی۔
مختلف ادوار میں جو فقہا ء مدرسہ اسلامیہ سیال شریف درس و تدریس اور افتاء کے فرائض سر انجام دیتے رہے ان میں سے صرف تین نام یہاں درج کئے جاتے ہیں جس سے مدرسہ اسلامیہ سیال شریف کی علمی برتری کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ (۱)قاضی القضاۃ سید احمد الدین گانگوی رحمۃ اللہ علیہ(۲)شیخ الہند مولانا معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ(۳) امام المناطقہ علامہ عطا محمد بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ
مدرسہ اسلامیہ سیال شریف سے وابستہ ذیلی مدارس کو اگر دیکھاجائے تو یوں لگتاہے کہ تیرہویں صدی کے پہلے نصف میں سیال شریف میں علم دین کی یہ شمع روشن نہ ہوتی تو پنجاب کی کل آبادی نہیں تو تین چوتھائی آبادی تو ضرور دینی علوم کے حصول سے محروم رہ جاتی۔
حضرت خواجہ شمس العارفین رحمۃ اللہ علیہ کے ذوق ِ علم و معرفت کو سمجھنے کے لئے علامہ غلام دستگیر بے خود جالندھری کا یہ اقتباس انتہائی موثر ہے:’’طبع مبارک کشف و کرامت کی طرف راغب نہیں ہوئی، ہاں ذوق علم بدرجہ کمال تھا۔ آخر عمر تک بھی فرماتے رہے کہ علم سے سیری نہیں ہوئی اور کتب بینی کا شوق بڑھاپے میں بھی کم نہیں ہوا۔ اسی علم و عشق کے اتحاد اور شریعت طریقت کے اجتماع سے مطمع نظر اُس بلندی سے نیچے کبھی اُترنے نہ پایا جو عبود یت کی قیام گاہ ہے۔ اگر کبھی کرامت کا ذکر ہوا تو فرمایا ’’ من طالب کریم ام نہ طالب کرامت‘‘ کسی نے لطائف کے متعلق سوال کیا تو فرمایا :’’ من طالب لطیف ام نہ طالب لطائف‘‘ (اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ کرامات آپ سے سرزد نہیں ہوئیں بہت ہوئیں ، لیکن آپ کی نظر اُس طرف نہیں تھی۔ بغلبہ حالات ایسے واقعات پیش آ جایاکرتے تھے ۔)‘‘
حضرت ضیاء الملت فرمایا کرتے ہیں :’’ باوجود کرامت کے واقع ہونے کے بھی ہمارے پیران عظام اُن سے ہمیشہ مجتنب رہے ۔ حقیقت میں سب سے بڑی کرامت ایک کامل مسلمان اورخدا پرست مومن کی یہ ہوسکتی ہے کہ ایک نعرہ توحید سے شرک آمیز کفر آلود، رسوم پرست دلوں سے زنگ دور کرکے اُن کو خالص صبغۃ اللہ کے رنگ میں رنگ دے اور ظاہری اورباطنی تہذیب کے انوار سے مزین کرکے حقوق العباد اور حقوق اللہ کے ادا کرنے کا اہل بنا دے۔ اِس پہلو میں ہمارے حضرات دنیا کے لئے ایک نمونہ ہیں اور حضرت اعلیٰ کے فیضان نے تو تھوڑے سے عرصے میں اس قدر گوہر باری کی کہ بیان سے باہر ہے۔ آپ کے تربیت یافتہ خلفاء ہی سے نہیں، بلکہ ایک نظر دیکھنے والوں کے حالات سے دنیا پر روشن ہوچکا ہے کہ واقعی کامل و مکمل انسان دوسروں کو بھی کامل بنا سکتاہے۔ اِس قدر علماء و فضلاء کا مجمع تو متقدمین کے بعد بہت کم کسی دربار میں مجتمع ہوا ہوگا ۔ ‘‘
خلفائے عظام:احیاء تصوف کے لئے حضرت خواجہ شمس العارفین علیہ الرحمۃ کی خدمات کا احاطہ انتہائی مشکل ہے یہاں اُن کے درجنوں خلفاء میں سے 12 اعاظم خلفاء کے اسماء درج کئے جاتے ہیں جن سے آپ کی کاوشوں کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔
(۱)حضرت خواجہ محمد الدین سیالوی (۲)حضرت خواجہ محمد معظم الدین (۳) حضرت پیر سید مہر علی گولڑوی(۴) حضرت مولانا غلام قادر بھیروی (۵)حضرت امیر السالکین پیر امیر شاہ بھیروی(۶) حضرت مولانا عبد العزیز بگوی(۷) حضرت قاضی احمد الدین چکوالوی(۸) حضرت خواجہ سید غلام حیدر علی شاہ جلالپوری (۹) حضرت مولانا غلام محمد للہی(۱۰) حضرت مولانا جمال الدین گھوٹوی (۱۱) پیر سید جند وڈا شاہ گیلانی(۱۲) حضرت مرزا نواب بیگ دہلوی ۔ رحمۃ اللہ علیہم
آپ نے خانقاہی نظام اعلیٰ پیمانے پرقائم کیا تھا، آپ کا اخلاق بہت اعلیٰ تھا ، اجنبی اور ملاقاتی سے ایک طرح ملتے تھے ، ہرآنے والے سے خلوص اور محبت کااظہار فرماتے ، آپ کے ہاں لنگر کا خاص اہتمام تھا، تمام زائرین اور مسافروں کو کھانا لنگر خانہ سے ملتا تھا، مرأۃ العاشقین میں آپ کا یہ فرمان ہے ’’موکد و بزرگ ترین اعمال درطریق خواجگان چشت نان دادن است کہ دردیگر خاندان چنیں روش یافتہ نمی شود ‘‘ ( خواجگان چشت کے نزدیک سب سے افضل اور انتہائی ضروری عمل کھانا کھلانا ہے جو دیگر مشائخ کے ہاں اس عظیم الشان اہتمام کے ساتھ نہیں پایا جاتا)۔
معمولات روزو شب:آپ کے معمولات کا خلاصہ کچھ یوں ہے : آپ کو بچپن سے ہی عبادت و ریاضت سے دلی لگائو اور اُنس تھا لیکن مرشد کریم کی توجہ سے تہجد ، اشراق ،اوابین اور حفظ الایمان کی سختی سے پابندی کرنے لگے۔آپ کا معمول تھا کہ نصف شب کے بعد اُٹھ کر تہجد ادا فرماتے ،اس کے بعد ایک بار اسماء حسنیٰ اور پانچ سو مرتبہ استغفار پڑھتے اور پھر مراقب ہوجاتے ، نماز فجر کے بعد مسبعات عشرہ ، دعائے کبیر ،درود مستغاث ، کبریت احمر، دلائل الخیرات، نوافل اشراق پڑھ کر قرآن پاک کی تلاوت فرماتے پھر کتب تصوف کا مطالعہ فرماتے ،ظہر کے بعد اکثر طلباء آپ سے کتب تصوف پڑھا کرتے ۔ نماز عصر کے بعد ارادت مندوں کے حلقے میں ختم خواجگان پڑھاجاتا اور بعض اوقات ختم خواجگان عشاء کے بعد پڑھا جاتا۔ نماز مغرب کے بعد اوابین اور درود پاک آپ کا معمول تھا۔ آپ کے معمولات ِ مقدسہ کو ملاحظہ کیاجائے تو یوں لگتا ہے کہ گویا وہ اپنی حیات ِ مبارکہ کا ایک لمحہ بھی ضائع کرنے کے روادار نہ تھے ۔
وصال مبارک : ایک بھرپور اور پُر نور علمی و روحانی زندگی گزار کر آپ 24صفر المظفر 1300ھ بروز جمعۃ المبارک بوقت صبح دار الفناء سے دار البقاء کی طرف رخصت ہوئے۔
٭٭٭٭٭