• اولیائے کرام علیہم الرحمۃ

حضرت مولانا عبدالرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ

مقبول بارگاہ ، خاتم الشعراء،سلسلہ نقشبندیہ کے پیشوا
حضرت مولانا عبدالرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ
 حیات و خدمات
تحریر وتحقیق : پروفیسرڈاکٹر معین نظامی 

 

تاریخِ اِسلام کے مختلف اَدوار میں متعدد ایسی جامع الکمالات شخصیات کا ظہور ہوا ہے جن کے علمی، عرفانی اور عملی کارناموں سے آگاہ ہو کر ہر انصاف پسند شخص بے ساختہ حیرت زدہ ہو جاتا ہے، کیوں کہ کسی ایک شخص میں اتنی زیادہ ظاہری و باطنی خصوصیات کا بہ یک وقت اجتماع معمول کی بات نہیں ہوتی اور ایسی زندئہ جاوید مثالیں نادر ہوتی ہیں۔ حضرت مولانا نورالدین عبدالرحمان جامی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار ایسی ہی یادگار ِزمانہ تہذیبی شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ عظیم عالمِ دین، نامور صوفی، بے مثال شاعر اور پر تاثیر مصنف تھے۔ ان کی شاعری اپنے حسنِ بیان، سلاست و روانی، لطافت و رنگینی، درد و سوز اور جوش و سرمستی کی بدولت عالمی ادبِ عالیہ میں برتر مقام رکھتی ہے۔ رسولِ کریم ﷺ کی شان میں ان کی لافانی نعتیں اور ائمہ اہلِ بیت علیہم السلام کی مدح میں ان کے والہانہ مناقب اپنے فکر و خیال کی پاکیزگی ، نزاکت ِ احساس، جمالِ اظہار، پاسِ آداب اور وفورِ اخلاص و شیفتگی کے باعث دنیا بھر کے اہل عشق و عقیدت کے ہاں راحت ِقلب و نظر کا سرمایۂ سعید ہیں۔
حضرتِ مولانا جامی کا زمانۂ حیات نویں صدی ہجری اور پندرھویں صدی عیسوی ہے۔ وہ ۲۳شعبان ۸۱۷ھ/۷ نومبر ۴۱۴ء کو موجودہ ایران کے مشہور شہر تربتِ جام کی نواحی بستی خرجرد میں متولد ہوئے۔ ان کے والد ِ ماجد کا نام حضرت نظام الدین احمد دشتی اور جدِّ امجد کا اسمِ گرامی حضرت شمس الدین محمد دشتی تھا۔ ان کے آباؤ اجداد مشہور ایرانی شہر اصفہان کے دشت نامی محلّے میں رہتے تھے اور اس نسبت سے دشتی کہلاتے تھے۔ ان کے دادا وطن کی بدامنی و شورش کے پیشِ نظر وہاں سے ہجرت کر کے خرجرد میں مقیم ہو گئے تھے۔ وہ نسل در نسل عالموں اور مفتیوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور علاقے میں عزت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ چنانچہ انھیں خرجرد کا قاضی و مفتی  بنادیا گیا۔ خرجرد ہی میں فقہِ حنفیہ کے مشہور امام حضرت محمد شیبانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد کا ایک نیک نام گھرانہ آباد تھا جہاں حضرت مولانا جامی کے دادا کی شادی ہوئی۔
حضرتِ مولانا جامی اوائل میں اپنے آبائی وطن کی نسبت سے دشتی تخلّص فرماتے تھے لیکن پھر جلد ہی انھوں نے اپنا تخلّص جامی رکھ لیا اور یہی تخلّص ان کی دائمی پہچان بنا۔ انھوں نے خود یہ تخلّص اختیار کرنے کی دو وجوہات بیان کی ہیں۔ایک یہ کہ وہ جام کے علاقے میں پیدا ہوئے اور دوسری یہ کہ انھیں شیخ الاسلام احمد نامقی جامی زندہ پیل رحمۃ اللہ علیہ کا خصوصی علمی و ذوقی فیضان حاصل ہے جن کا آستانۂ معرفت تربتِ جام میں ہے۔
مولانا جامی نے اپنے والد ماجد سے فارسی و عربی زبان اور صرف ونحو کی تعلیم پائی اور فرمایا کرتے تھے کہ حقیقت میںمیرے والد ہی میرے استاد ہیں۔ ان کے والد مکرم نے ان کی ذہانت و فطانت ملاحظہ کرتے ہوئے اعلیٰ ترین رائج دینی و دنیوی علوم میں انھیں مہارتِ تامّہ دِلانے کی خواہش کی تاکہ خاندان کی زریں علمی روایت جاری رہ سکے۔ افغانستان کا موجودہ شہر ہرات ان دِنوں عظیم علمی، ثقافتی اور تہذیبی مرکز تھا جہاں مختلف علوم و فنون کے محقق اساتذہ نے اپنے تدریسی حلقے قائم کیے ہوئے تھے۔ ان کے والدماجد نے اُنھیں ہرات کے مدرسہ نظامیہ میں داخل کرایا جہاں حضرتِ مولانا جامی نے مولانا جنید اصولی، مولانا خواجہ علی سمر قندی اور مولانا شہاب الدین محمد جاجرمی جیسے فضلائے اجل سے تحصیل علم کی۔ اس کے بعد انھوں نے موجودہ ازبکستان کے مشہور شہر سمر قند میں مولانا صلاح الدین موسیٰ سے اکتسابِ علم کیا جو قاضی زادئہ روم کے لقب سے معروف ہیں۔ قاضی زادئہ روم حضرتِ جامی کی غیر معمولی صلاحیتوں سے بہت زیادہ متأثر ہوئے۔ ایک بار انھوں نے فرمایا: جب سے  سمر قند آباد ہوا ہے، اس میں جامی سے زیادہ جودتِ طبع اور قوتِ تصّرف رکھنے والا کوئی اہلِ علم نہیں آیا ہے۔ ایک عظیم استاد کی طرف سے اپنے لاثانی شاگرد کے لیے یہ تحسینی کلمات بہت بڑی سند ہیں۔ اپنے زمانۂ طالب علمی کے بارے میں بیان کرتے ہوئے ایک بار مولانا جامی نے فرمایا تھاکہ خدا کے فضل و کرم سے میں کسی استاد کے حلقۂ درس میں بھی مغلوبانہ صورت میں نہیں رہا ہوں بلکہ زیادہ تر برابری اور بعض اوقات برتری کی حالت میں رہا ہوں۔ اس علمی تبحر کے باوجود وہ زندگی بھر خود کو طالب علم ہی سمجھتے اور کہتے رہے۔
حضرت مولانا جامی کے والدین اہل اللہ سے سچی محبت رکھنے والے تھے۔ ان کے گھر کا ماحول بھی ایسا تھا جہاں ہر وقت علم و معرفت کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ ان کے والد گرامی مشائخِ کرام کی زیارت کے بے حد شائق تھے۔ وہ ہمیشہ بچوں کو بھی بزرگانِ دین کی زیارت کے لیے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ کئی مشہور اہلِ دل حضرات ان کے گھر بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ اسی تناظر میں مولانا جامی کو بچپن میں حضرت خواجہ محمد پارسا نقش بندی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا جو سلسلۂ نقش بندیہ کے بانی حضرت خواجہ بہاء الدین نقش بند رحمۃ اللہ علیہ کے مقرب ترین خلفا میں سے تھے۔ وہ زیارت مولانا جامی کو عمر بھر یاد رہی۔ اپنی مشہور تصنیف ’’نفحات الانس ‘‘میں فرماتے ہیں:’’ آج ساٹھ سال گزر جانے کے بعد بھی ان کے چہرئہ انور کی تروتازگی میرے دل میں اسی طرح جلوہ گر ہے۔ مجھ فقیر کو خواجگانِ کرام کے خاندان سے جو خصوصی ارادت و محبت ہے، وہ انھی کی نگاہِ کرم کا فیضان ہے۔ ‘‘اسی طرح ایک بار ایک اور بزرگ حضرت مولانا فخرالدین لورستانی ان کے ہاں تشریف لائے اور انھوں نے اس ہونہار بچے سے خصوصی شفقت و محبت کا اظہار فرمایا۔ مولانا جامی کو وہ ملاقات بھی زندگی بھر یاد رہی اور اس کی برکات ہمیشہ محسوس ہوتی رہیں۔ فرماتے تھے کہ اسی کی برکت سے میں مشائخِ کرام کی محبت میں جیتا ہوں اور امیدوار ہوں کہ اسی پر میرا خاتمہ بالخیر ہوگا۔
حضرتِ مولانا جامی حصولِ علم کے ساتھ ساتھ طلبِ مرشد میں بھی بے قرار رہتے تھے۔ آخر کارایک واضح روحانی اشارے پر وہ سمر قند سے ہرات پہنچ کر حضرت شیخ سعدالدین کا شغری نقش بندی ہراتی کے دامنِ طریقت سے وابستہ ہو گئے۔ حضرتِ کاشغری نے بھی ہمیشہ مولانا جامی کو خصوصی مرکز ِ لطف و کرم بنائے رکھا اور ان کی باطنی تربیت میں غیر معمولی اہتمام فرمایا۔ حسنِ اتفاق سے بعد میں مولانا جامی کی شادی اپنے شیخِ طریقت کی پوتی سے ہوئی۔ ۸۶۰ ھ میں حضرت شیخ کاشغری کا وصال ہوا تو مریدِ صادق نے اپنے مرشد و مربی کا  دل گداز مرثیہ لکھا جو حضرت امیر خسرو کے لکھے ہوئے مرثیہء حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کی یاد تازہ  کرتا ہے۔ اپنے شیخِ طریقت کے وصال کے بعد مولانا جامی نے جلیل القدر نقش بندی بزرگ حضرت خواجہ ناصر الدین عبیداللہ احرار سے بھی روحانی راہ نمائی لی اور اپنی شاعری اور تصانیف میں ان کا شایانِ شان ذکر کیا۔ حضرت خواجہ احرار بھی مولانا جامی سے دلی محبت رکھتے تھے اور ہمیشہ بے حد احترام سے پیش آتے تھے۔ ۸۹۵ھ میں حضرت خواجہ احرار کے وصال پر بھی جامی نے زور دار مرثیہ لکھا جو ان کے غم زدہ احساسات کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔
تذکروں میں حضرتِ مولانا جامی کے بعض اعزّہ و اقارب کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان کے ایک بھائی حضرت مولانا محمد جامی تھے۔ وہ باعمل عالم اور قادر الکلام شاعر تھے۔ انھیں فن ِ موسیقی میں مہارت حاصل تھی اور وہ اہلِ دنیا کی صحبتوں سے کنارہ کش رہتے تھے۔ مولانا عبداللہ ہاتفی خرجردی مولانا جامی کے بھانجے تھے۔ ان کا شمار اپنے عہد کے اہم علمااور شعرا میں ہوتا ہے۔ مشہور مصنف حضرت مولانا فخرالدین علی بن حسین واعظ کاشفی مولانا جامی کے بہترین دوست بھی تھے اور ہم زلف بھی۔
مولانا جامی کے چار صاحب زادے تھے جن میں سے تین کم عمری ہی میں رحلت کر گئے تھے۔ صرف ایک فرزند حضرت خواجہ ضیاء الدین یوسف ہی ان کے بڑھاپے کا ظاہری سہارا بنے۔ وہ بھی صحیح معنوں میںعالم و عارف شخصیت تھے۔ مولانا جامی نے اپنی دو کتابیں خاص طور پر اسی نورِ نظر کے لیے تصنیف کیں، گلستانِ سعدی کی طرز پر بہارستان اور عربی قواعد کی مشہور نصابی کتاب الفوائد الضیائیہ جو شرح جامی کے نام سے معروف ہے۔
حضرتِ مولانا جامی خلوت نشین بزرگ تھے اور سیرو سفر کے زیادہ شائق نہیں تھے۔ بایں ہمہ علمی و روحانی ضرورتوں کے تحت انھوں نے ہرات، سمر قند، مرو، فاریاب، تاشقند،مشہد، بغداد، کربلا، نجف ِ اشرف، مدینہ منورہ اور مکّہ معظمہ کے سفر کیے۔ ان کے سفر حجاز کی تفصیلات کئی تذکروں میں محفوظ ہیں۔
حضرتِ مولانا جامی کا وصال جمعۃ المبارک، ۱۸محرم ۸۹۸ھ ۹-نومبر ۱۴۹۲ء کو عین اذانِ جمعہ کے وقت ہرات میں ہوا۔ اگلے دن انھیں وہیں ہرات میں اپنے شیخِ طریقت کے مقبرے میں سپردِ خاک کیا گیا۔ان کا جنازہ اپنے زمانے میں تیموری سلطنت کا سب سے بڑا  اجتماع تھا جس میں ہر مکتبہ فکر اور ہر طبقے کے افراد نے محبت و احترام سے شرکت کی۔
حضرتِ مولانا جامی کی علمی و روحانی شہرت ان کی زندگی ہی میں دور دور تک پھیل گئی تھی اور وہ حلقہء عوام و خواص میں یکساں محترم و مقبول تھے۔ کئی ممالک کے بادشاہ، وزرا اور علاقائی حکمران ان کی عقیدت کا دم بھرتے تھے۔ ایران کے تیموری خاندان کے بادشاہوں میرزا ابوالقاسم بابر، میرزا ابو سعید گورگان اور سلطان حسین بایقرا کے علاوہ ترکمان حکمرانوں میں سے سلطان جہان شاہ قراقویونلو،اوزون حسن آق قویونلو اور سلطان یعقوب بیگ خاص طور پر ان کے دلی مدّاح تھے۔ عثمانی سلطنت کاعظیم بادشاہ سلطان محمد فاتح اور اس کا بیٹا سلطان بایزید ثانی بھی ان سے عقیدت رکھتے تھے۔ ان میں سے اکثر حکمران مولانا جامی کی خدمت میں خط بھیجتے رہتے تھے۔ تیموری حکمرانوں کا عظیم دانشور وزیر امیر علی شیرنوائی تو حضرتِ جامی کا شاگرد اور مرید ہی تھا۔ حضرتِ جامی کو بھی نوائی سے بے حد محبت تھی۔ نوائی نے ان کا درد انگیز مرثیہ بھی لکھا ہے۔
حضرتِ مولانا جامی نے عربی و فارسی میں مختلف موضوعات پر بہت سی گراں قدر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ انھوں نے لڑکپن ہی میں شعر گوئی کا آغاز کر دیا تھا۔ فارسی شاعری میں ان کی مثنویاں، غزلیں، قصائد، رباعیات، معما اور دیگر کلام اکابر شعرا کے ہم پلہ ہے۔ ان کی نعتیں فکری و فنی اور عقیدتی حوالوں سے بے نظیر ہیں۔ انھوں نے کچھ بادشاہوں، وزیروں اور امیروں کے بارے میں توصیفی اشعار بھی لکھے ہیں لیکن ان میں مبالغہ آمیزی اور بے جا مداحی نہیں کی گئی۔کئی صاحبانِ باطن کا خیال ہے کہ اس نوعیت کی شاعری اپنے باطنی احوال کی پردہ پوشی کے لیے کی گئی ہے۔
مولانا جامی اعلیٰ روحانی مرتبے کے حامل شیخ طریقت تھے۔ ان کی متعدد مصدقہ کرامات تذکروں میں منقول ہیں، اگرچہ خود مولانا جامی اکثر مشائخ کی طرح کشف و کرامت کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے تھے اور اسے عامیانہ ذوق کی چیز قرار دیتے تھے۔ وہ پیری مریدی کو جاہ طلبی اور زد پرستی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ خود بہت کم لوگوں کو مرید کیا کرتے تھے۔ انھوں نے ریا کاری کی مذمت اور نمود و نمائش سے بیزاری کا زور دار اظہار اپنی ساری شاعری میں کیا ہے اور بعض نثری تصانیف میں بھی خاص طور پر ان خرابیوں پر سخت تنقید کی ہے۔ انھیں بے عمل واعظوں سے بھی سخت وحشت ہوتی تھی اور وہ اس کا برملا اظہار فرمایا کرتے تھے۔ وہ خود سادگی، انکسار، بے نیازی، قناعت اور خدمتِ خلق کا پیکرِ جمیل تھے۔ وہ ہمیشہ کوشش کرتے تھے کہ مجلسوں اور محفلوں میں نمایاں ترین جگہ پر نہ بیٹھیں۔ انتہائی سادہ خوراک اور بے حد سادہ لباس استعمال فرماتے، عوام میں گھل مل کر رہتے ، ضرورت مندوں کی خفیہ مدد کرتے اور مظلوموں کی حمایت میں ہمیشہ زبانی تحریری اور عملی کاوشوں پر کمر بستہ رہا کرتے تھے۔ ان کے کئی خط محفوظ ہیں جن میں مظلوموں اور ضرورت مندوں کی جائز سفارشات کی گئی ہیں۔ خودداری اور عزتِ نفس میں بھی اُن کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ان کی روحانی زندگی بھی خیرو برکت کا درخشاں نمونہ تھی۔ وہ بہت کم کھاتے، کم سوتے، اورادو وظائف اور مراقبات میں مشغول رہتے اور گاہے بہ گاہے مجلسِ وعظ کا اہتمام بھی فرماتے۔ انھیں زندگی بھر کتابوں سے گہری دلچسپی اور مطالعے کا بہت شوق رہا۔ ان کے ہاں دینی اور متصوفانہ کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ فراہم ہو گیا تھا۔ انھوں نے اپنی ذاتی آمدنی سے جام میں ایک جامع مسجد تعمیر کروائی اور ہرات میں ایک عظیم دارالعلوم کی بنیاد رکھی۔ مسجد اور مدرسے کے لیے انھوں نے معقول جائدادیں بھی وقف فرمائیں تاکہ دونوں مراکز ہر اعتبار سے خود کفیل رہیں۔
علمیت، زہدو تقویٰ اور عبادت و ریاضت میں بلند رتبے پر فائز ہونے کے باوجود حضرت مولانا جامی خشک مزاج اور سخت طبیعت نہیں تھے۔ ان کے تذکروں کے قارئین یہ پڑھ کر بہت خوش گوار حیرت سے دوچار ہوتے ہیں کہ وہ انتہائی شگفتہ مزاج اور خوش طبع تھے۔ ان کے مستند سوانح نگاروں نے ان کی بذلہ سنجی کے بیسیوں واقعات درج کیے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا جامی کتنے حاضر جواب اور لطیف الطبع شخصیت تھے۔ اس خصوصیت میں بھی وہ حضرتِ امیر خسرو کا عکسِ جمیل ہی لگتے ہیں۔