• اولیائے کرام علیہم الرحمۃ

حضرت سیدعبد اللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ 

سلطان المشائخ ،مجاہد اسلام
حضرت سیدعبد اللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ 




قرونِ اولیٰ سے ہی اہل ہندکی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ انھیں ایک سے بڑھ کر ایک ہستی میسر آتی رہی ہے اور یہ اپنے ایمان و یقین کو مضبوطی عطا کرتے رہے ہیں انھیں نفوس قدسیہ میں سے ایک نام سید السادات، آفتاب علم و حکمت، مجاہد اسلام سیدنا عبد اللہ الاشتر المعروف حضرت عبد اللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کاہے جن کے در کی بہاریںآج بھی اہل پاک و ہند کو فرحت و تازگی فراہم کر رہی ہیں ۔
 آپ کا نسب ِ مقدسہ کچھ اس طرح ہے:’’ابو محمد عبد اللہ بن محمد نفس ذکیہ بن عبد اللہ المحض بن امام حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن مجتبیٰ بن سیدنا مولیٰ علی المرتضیٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین‘‘آپ کی ولادت باسعادت مدینہ منورہ کی مقدس فضاؤں میں سن 98ہجری میں ہوئی اور شہادت موجودہ کراچی کا علاقہ کلفٹن میں 151 ہجری میں ہوئی اس اعتبار سے آپ کی عمر مبارک تقریباً 53برس ہوئی۔ آپ کی سندھ میں آمد 138ہجری میں چالیس برس کی عمر میں ہوئی یوں آپ کی تبلیغ کا دورانیہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی حیاتِ مقدسہ کی نسبت سے تیرہ برس بنتا ہے۔آپ نے تعلیم اپنے والد محترم حضرت امام محمدبن نفس ذکیہ رضی اللہ عنہ سے حاصل کی۔آپ نے فن حرب اور خاص طور پر گھڑ سواری میں بہت کمال حاصل کیااسی لئے آپ کو’’ الاشتر ‘‘یعنی شہہ سوار کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔جب علوی تحریک کا آغاز ہوا تو آپ کے والد محترم نے آپ کو سندھ کی طرف روانہ فرمایااور ساتھ ہی کسی پر بوجھ بننے کی بجائے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے اخراجات خود اٹھانے کی تلقین کی اور اس مقصد کے لئے آپ کو خطیر رقم بھی دی کہ جاتے ہوئے بصرہ سے کافی تعداد میں گھوڑے خرید لیں یہ آپ کے لئے سامان سفر بھی ہوں گے اور سندھ کے علاقہ میں تجارت کے بھی کام آئیں گے۔اسی دوران آپ کے والد محترم نے اپنے برادر حضرت نفس رضیہ ابراہیم علیہ الرحمۃ کو بھی بصرہ روانہ کیا تھاجنھوں نے وہاں پر لوگوں کو احقاقِ حق کیا تو ہزاوں لوگ آپ کی آواز پرلبیک کہنے لگے وہاں سے وہ کوفہ تشریف لے گئے وہا سے تقریبا ًایک لاکھ لوگ آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہو گئے اس دوران بڑے بڑے فقہاء آپ کا ساتھ دینے کے لے نہ صرف تیار ہوگئے بلکہ انھوں نے آپ کی حمایت میںفتوے بھی صادر کردئیے، ان میں امام الائمہ سیدناامام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اور امام دار الہجرت سیدناامام مالک علیہ الرحمۃ جیسی رفیع الشان ہستیاں بھی شامل ہیں بلکہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے تو آپ کے ساتھ زرِ کثیر کے ساتھ مالی تعاون بھی بہت زیادہ کیا جس کی پاداش میں انھیں بعد ازاں کوڑوں سے بھی پٹوایا گیا اور ساتھ ہی ساتھ قید و بند کی بھی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیںحتی کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو قاضی القضاۃ نہ بننے کا بہانہ بناکر جیل میں زہر دے کر شہید کردیا گیا، واضح رہے کہ شہادت سے قبل آپ کو ایک سو کوڑا مارا گیا تھا۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علامہ ابن جریر طبری کی تاریخ سے ایک اقتباس نقل کردوں جو کہ ا ن کی تصنیف ’’ تاریخ الامم والملوک ‘‘ کی ساتویں جلد میں 150 ہجری کے واقعات کے ضمن میں موجود ہے:’’ امام محمد نفس ذکیہ رضی اللہ عنہ نے ایک جماعت کو حکم دیا کہ مدینہ منورہ سے میرے صاحبزادے عبد اللہ علیہ الرحمۃ کو لے کر سندھ کی طرف روانہ ہوجاؤراستہ میں بصرہ سے عمدہ نسل کے گھوڑے خرید لینااور گورنر سندھ جو ہم سے محبت رکھتا ہے اس کے پاس چلے جانا ، چونکہ وہ اس سے پہلے آپ کی بیعت کرچکا تھا، چنانچہ جب یہ لوگ سندھ پہنچے تو ان کے قیمتی گھوڑوں کی ہر طرف دھوم مچ گئی حتی کہ گورنر کو بھی خبر ہوئی ، وہ گھوڑے دیکھ کر بہت خوش ہوا لیکن انھوںنے کہا کہ آپ سے علیحدگی میں بات کرنا چاہتے ہیں، جب اس نے موقع دیا تو وہ کہنے لگے کہ ہمارے پاس تو گھوڑوں سے بھی کافی زیادہ قیمتی چیز موجود ہے اور وہ تمہارے لئے دنیا و آخرت میں بہت بہترین ہے آپ ہمیںدو شرطوں میں امان دے دیں یا تو اسے قبول کرلیں اور اگر قبول نہ کریں گے تو اس معاملہ کو پوشیدہ رکھیں گے اور ہمیں کوئی اذیت نہ دیں گے۔ اس نے امان دے دی تو انھوں نے بتایا کہ ہم آپ کے پاس گھوڑے لے کر نہیں آئے بلکہ یہ دیکھئے یہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے ’’حضرت عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ بن حسن مثنی بن امام حسن رضی اللہ عنہم ‘‘ ہیں ۔چنانچہ جب اسے معلوم ہوا تو اس نے آپ کا بہت زیادہ اکرام و احترام کیا اور آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آپ کو اپنا مہمان بنالیا اور آپ کو پورے سندھ کے اندر تبلیغ اسلام کی بلا رکاوٹ اجازت دے دی، آپ نے سندھ کے غیر مسلموں کو تبلیغِ اسلام شروع کی جس کے نتیجے میں بقول صاحب سمط النجوم العوالی علامہ عصامی شافعی رحمۃ اللہ علیہ(جن کی وفات1 111ہجری میں ہوئی) آپ کے دست مبارک پر ایک خلق کثیر مسلمان ہونا شروع ہوگئی ، آپ ایک ہندو راجہ کے پاس بھی گئے جو آپ کی تبلیغ اور انداز محبت کو دیکھتے ہوئے مسلمان ہوگیا اور اس نے اپنی صاحبزادی کی شادی بھی آپ سے کردی جن سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے’’ محمد‘‘ رکھا اور اسی کی نسبت سے آپ کی کنیت’’ ابو محمد‘‘ مشہور ہوئی اور ان کے آگے پانچ بیٹے تولد ہوئے۔
اس دوران آپ کو اطلاع ملی کہ آپ کے والد محترم حضرت سیدنا محمد نفس ذکیہ رضی اللہ عنہ کو 15رمضان المبارک145 ہجری میں مدینہ منورہ میں اور اسی سال آپ کے چچا حضرت ابراہیم علیہ الرحمۃ کو25 ذی القعدہ کو بصرہ میں شہید کردیا گیا ۔بعض لوگوں کے ذہن میں ایک سوال پیدا کردیا گیا ہے کہ محمد بن قاسم سندھ پر حملہ کرکے اسے حکومت اسلامیہ میں شامل کرنے کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ وہ (نعوذ باللہ من ذالک) سادات کرام اور خاص طور پر حضرت عبد اللہ شاہ غازی علیہ الرحمۃ کو شہید کرنے کی غرض سے آیا تھا۔ تو اس کے دو بالکل سیدھے سے جواب موجود ہیں ۔اول تو یہ کہ حضرت عبد اللہ شاہ غازی علیہ الرحمۃ کی ولادت جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں سن 98 ہجری کی ہے جبکہ محمد بن قاسم کو بقول امام ابن جریر طبری اور ابن کثیر وغیرہ کے 90ہجری میں پھانسی دے دی گئی تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت عبد اللہ شاہ غازی علیہ الرحمۃ کی ولادت سے بھی کم و بیش آٹھ سال قبل گرفتاری کے لئے سندھ بھیج دیا گیا ہو۔ بعض روایات کے مطابق محمد بن قاسم کی پھانسی کا سال 96ہجری ہے تو یہ بھی حضرت عبد اللہ شاہ غاز ی علیہ الرحمۃ کی ولادت سے دوسال قبل کا واقعہ بنتا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر محمد بن قاسم ان کی گرفتاری کے لئے آیا تھا تو گرفتاری یا شہادت کا ٹارگٹ پورا ہونے پر اسے واپس چلے جانا چاہئے تھا جبکہ وہ تو ملتان تک فتوحات کرتے کرتے پہنچا اس زمانہ میں یہ کوئی معمولی سفر اور جنگیں نہ تھیں کہ جو صرف ٹہلتے ٹہلتے ہوجاتیں لہٰذا واضح ہوا کہ حضرت عبد اللہ شاہ غازی علیہ الرحمۃ کا شہادت 20ذی الحج 151ہجری میں عباسی گورنر ہشام بن عمرو تغلبی کے بھائی سفیح بن عمرو تغلبی اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں ہوئی ۔ آپ کا مزارِ مبارک کلفٹن(کراچی) میں واقع ہے، جہاں ہر سال20تا22 ذی الحجہ سہ روزہ عرسِ مبارک بڑے عقیدت واحترام سے منایا جاتا ہے۔ 


تحریر: علامہ محمد احمد برکاتی