ۣقدوۃ السالکین ، محبوب الواصلین ،حضور میاں شیرربانی
اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ
سیرت وتعلیمات
’’شرقپور‘‘خطہ ٔ پنجاب ، ضلع شیخوپورہ کی مردم خیز تحصیل جو اپنے وقت کے جید اولیائے کرام او ر صوفیائے عظام کی وجہ سے جانا پہچانا جاتاہے ، شرقپور کی سرزمین نے بے شمار ایسے صاحبانِ علم وفن ،پیشواؤنِ طریقت، راہبران ِ شریعت کو جنم دیا ہے جن کی سربلندی اور علمی سرفرازیاںصرف اُن کی جنم نگری کی محدود فضاؤں سے اُبھر کر لامحدود دنیائے علم وادب کا وہ حصہ نہیں بلکہ علم و ادب کا افتخاراور تہذیب کا نگار بن چکے ہیں ۔روحانیت کی وادی میں ایک عظیم عبقری اور تاریخ ساز شخصیت ،ولی ٔ کامل ،حجۃ الکاملین ، سندالواصلین، اعلیٰ حضرت شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ جو علمی ودینی اور روحانی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں ، آپ نے امام ربانی حضرت سیدنا مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ کی تحریک احیائے اِسلام کو برصغیر پاک وہند میں بالعموم اور خطہ پنجاب میں بالخصوص فروغ دینے میں بھرپور کردار ادا فرمایا ۔تذکرہ نگاروں کے مطابق آ پ کے آباؤ اجداد کابل افغانستان کے رہنے والے تھے ، علمی فضیلت کے باعث عام طور پر لوگ آپ کے اجداد کرام کو ’’ مخدوم ‘‘ کہا کرتے اور اِن میں بعض بزرگوں کو تو شاہی خاندان میں استاد کا درجہ بھی حاصل تھا ۔
جب اِسلامی فتوحات کا آغاز ہوا تو بزرگوں نے ہجرت کرکے ہندوستان کا رخ اور خطہ ٔ پنجاب کے ایک معروف شہر قصورکو اپنا مسکن بنانا پسند کیا ،آپ کے اجداد میں حافظ صالح محمد رحمۃ اللہ علیہ ہوئے جو صاحب علم وفضل اور تقویٰ وطہارت کا پیکر تھے ، کتابت اور خوشنویسی ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا ،اِ ن کے صاحبزادے حضرت بابا غلام رسول رحمۃ اللہ علیہ شرقپور تشریف لائے اور یہی شادی ہوئی اور ہمیشہ کے لیے مقیم ہوگئے ، حضرت شرقپوری علیہ الرحمۃ کے والد ِ گرامی حضرت میاں عزیز الدین علیہ الرحمۃ بہت نیک اور خدا ترس شخصیت کے حامل تھے ،1282 ہجری کے ایک روزِ سعید اُن پیشین گوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آن پہنچا جوحضرت شیر ربانی علیہ الرحمۃ کے متعلق اُس خطہ کے کامل بزرگوں نے دی تھیں ،آپ مادرزاد ولی تھے۔ آپ کا زمانۂ طفولیت اَیسا بے نظیرتھا کہ اُس کی مثال سوائے اَولیائے متقدمین کے کسی اور طبقے کے بچوں میں ملنی مشکل ہے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں آپ نے قرآنِ کریم پڑھ لیااور پانچویں تک کی تعلیم اپنے مقامی سکول میں حاصل کی ،پھر آپ کی تعلیم و تربیت حافظ حمید الدین رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کی گئی۔ آپ نے کچھ ہی عرصہ میں درسی کتب پڑھ لیں اور لکھنے میں بھی خاصی مہارت حاصل کر لی۔ خوشنویسی آپ کو ورثہ میں ملی تھی۔ آپ خوش نما پھول پتیوں میں اسم ’’محمد‘‘رقم کرتے اور مکتب میں ہی آپ کی خوش خطی کا شہرہ ہو گیا تھا۔ بچپن میںآپ کو گُھڑسواری کا بہت شوق تھا۔ آپ عشق و محبت کے بحر بیکراں میں غوطہ زن بھی رہے اور شریعت ِمطہرہ کی حدود سے بھی ذرہ بھر تجاوز نہیں کیا۔
حضرت میاں صاحب شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ بفضلہ تعالیٰ عشقِ رسول ﷺ، عرفانِ الٰہی اور دردِ دل سے کما حقہ‘ بہرہ وَر تھے۔ سخاوت میں آپ حاتم زمانہ تھے۔ ہمدردی اور بھلائی کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ دکھی اِنسانیت بلکہ ہر جاندار اور ہر ذی روح کی اِمداد کے لئے آپ ہر وقت کمر بستہ رہتے۔حضوروالا کے پاس اکثر لوگ اپنے دینی جھگڑے اور برادری کے قضیے پیش کر کے فیصلہ طلب کرتے تو آپ نہایت خوش اسلوبی سے فیصلے فرما دیتے۔آپ سچے مسلمان حنفی المذہب تھے۔ طریقت میں آپ کا تعلق سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ سے تھا۔ عقائد بھی آپ کے وہی تھے جو حضرت اِمام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کے تھے۔پیشوائے نقشبند حضرت بابا امیر الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کوٹلہ سے شرقپور آتے اکثر آپ کے والد صاحب کے ہاں ٹھہرتے ان کے روحانی تصرف کے زیر اثر آپ نے ان سے بیعت کی اور کافی عرصہ تک جذب و سکر کی کیفیت طاری رہی جب مرشد کریم نے عروج دیکھا تو خلافت بھی عطا فرمانے کا ارادہ کیا لیکن آپ کافی عرصہ تک انکاری رہے بالآخر مرشد ِ کریم کے اصرار پر قبول فرمایا اور ان کے حکم پر ہی شرقپور کو اپنی مستقل قیام گاہ بنایا اور روحانی سلسلہ آج تک قائم ہے۔
حضرت میاں صاحب شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک والہانہ طبیعت سے سرفراز فرمایا تھا جو سراسر محبت ، سراسرسوز تھی ۔ جس کا لازم خاصہ بے چینی و بے قراری تھا۔ آپ عشاکی نماز کے بعد مسائل شرعیہ کی مجلس منعقد کرتے اور پھر گھر تشریف لے جاتے۔ تہجد کی نماز آپ گھر میں اَدا فرماتے۔ اکثر وِتر آپ پہلی رات پڑھ لیتے۔ نماز فجر کے وقت مسجد میں تشریف لے آتے۔ بعد ادائے نوافل اشراق بچوں کو قرآنِ مجید کا درس دیا کرتے۔ آپ سب مہمانوں کے ساتھ مل کر کھانا تناول فرماتے اور آخر میں ہاتھ اُٹھا کر دُعا فرماتے۔پھر ظہر کی نماز سے پہلے تھوڑی دیر قیلولہ یعنی لیٹ کر آرام فرماتے۔آپ اپنے معمولات ِ کریمہ میں اس درجہ عزیمت کے قائل تھے کہ ایک بار بھی آپ کا قدم عزیمت سے نہ لڑکھڑایا خواہ کسی قدر ضروریات یا موانع اس کے برخلاف رونما ہوتے رہے ۔آپ کو خود نمائی سے کمال نفرت تھی ۔آپ ہر قول ہر فعل میں اتباع سنت ملحوظ رکھتے تھے اگر کسی سے خلافِ سنت فعل صادر ہوجاتا تو اُس سے سخت ناراضگی کا اظہار فرماتے ۔ آپ کی اکسیر ِ صحبت سے مسجدوں ، بازاروں ، دفتروں ، کھیت کھلیان ، بازار و کارخانوںاور حکومت کے ایوانوں میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ملنے والے سنت کا چلتا پھرتا نمونہ بنے رہے ۔ آج بھی آپ کے ملنے والے پہلی نظر میں پہچان لیے جاتے ہیں ۔
3ربیع الاوّل شریف 1347ھ بمطابق20 اگست 1928ء حضرت صاحب قبلہ کی روحِ اَقدس قفسِ عنصری سے عالم قدس کو پرواز کر گئی اور یہ درخشندہ آفتاب 65 برس اپنی ضیا پاشیوں سے خلق اللہ کے تاریک دِلوں کو منور فرمانے کے بعد رو پوش ہو گیا۔مزارِ مبارک شرقپور شریف میں مرجع گاہِ خلائق خاص وعام ہے ۔
ارشادات ِ اعلیٰ حضرت شیر ربانی رحمۃ اللہ علیہ
کسی بھی بزرگ شخصیت کے ارشادات و تعلیمات خدام کے لیے قیمتی سرمایہ اور لازوال دولت اور بیش قیمت دستاویزات کی حیثیت رکھتے ہیں جن پر عمل کرکے وہ اپنی دنیا وآخرت سنوار سکتے ہیں، مضمون کے اختتام پراعلیٰ حضرت میاں شیر ربانی رحمۃ اللہ علیہ کے چند ارشادات قارئین کرام کی نذر ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں :
٭…ہر انسان کو اپنے تمام افعال ‘ اعمال ‘ اقوال اور احوال نبی کریم ﷺ کی شریعت ِ مطہرہ کے مطابق اپنانے چاہیں ۔
٭…خواہشاتِ نفس کی پیروی سے گناہ صادر ہوتے ہیں اور نیک اعمال اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہوتے ہیں ۔
٭…لوگ مسجد میں گرمی کی وجہ سے زیادہ نہیں بیٹھتے مگر قیامت کے روز جب سورج سوا نیزے پر ہوگا ‘ تو کیا حال ہوگا۔
٭…اللہ کا بندہ بننابڑا مشکل ہے ‘ جب تک روئی دھنی نہ جائے اُس وقت تک اس سے تار نہیں نکلتا ،انسان بھی جب تک روئی کی طرح دُھنا نہ جائے اُس کی تار بھی رب کریم سے نہیں ملتی ۔
٭…توحیداوررسالت یک جان ہیں ۔ بغیر توحید کے رسالت نہیں اور بغیر رسالت کے توحید کی تکمیل ممکن نہیں ۔
٭…اللہ تعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک مان کر امر و نہی پر سختی اور استقامت سے عمل کر و اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری اور سچا نبی جان کر صدق ِ دِل سے سنت پر عمل کرنا بڑی سعادت ہے ، جب اس پر صدق دِل سے عمل ہوگا تو باقی جملہ اُمور خود بخود فرمانِ خداوندی کے عین تابع ہوجائیں گے ۔
٭…٭…٭…٭
صاحبزادہ بشیر احمد نقشبندی