• اولیائے کرام علیہم الرحمۃ

حضرت ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ

حقیقت وطریقت کا سرچشمہ ، منبع فیوض وبرکات ،شیخ الشیوخ
قطب العالم حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ

قطب العالم حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کا وجود مسعود اہل تصوف و سلوک کے لئے مطلع ہدایت کی طرح  ہے جہاں سے علوم و معارف اور حقائق و مکاشفات  کے بے بہا آفتاب طلوع ہوتے ہیں۔ آپ کے معاصرین و متاخرین نے آپ کو پیشوا اور رہنما تسلیم کیا۔ حضرت داتا صاحب گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’شرف اہل زمانہ و اندر زمانہ خود یگانہ حضرت ابو الحسن خرقانی کا شمار اکابر اور متقدمین مشائخ میں ہوتا ہے۔ آپ اپنے زمانے کے اولیاء کے ہر دلعزیز تھے۔‘‘ مولنا روم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی مثنوی میں انتہائی عقیدت و پیار کے ساتھ آپ کی خدمت میں اشعار کا نذرانہ پیش کیا اور انھیں‘‘ شیخ دین’’ کے لقب سے یاد کیا۔ 
آپ کا اسم گرامی’’ علی بن احمد بن جعفربن سلمان ‘‘اور کنیت ’’ابو الحسن‘‘تھی۔ آپ کی ولادت باسعادت 352 ھ بمطابق 363 عیسوی بسطام کے ایک علاقے خرقان میں ہوئی۔ آپ کے والد ِ گرامی ایک کسان تھے اور خرقان میں کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے آپ کی ولادت کی بشارت حضرت سیدنا بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے ہی سنا دی تھی کہ ایک دفعہ آپ کا گزر خرقان سے ہوا تو فرمایا کہ مجھے خرقان کی سرزمین سے ایک مرد حق کی خوشبو آتی ہے، جس کا نام’ علی ‘اور کنیت ’ابو الحسن‘ ہوگی۔ وہ کاشتکاری کے ذریعے اپنے اہل و عیال کی پرورش کرے گا۔ اور مقام و مرتبے میں مجھ سے تین گنا بلند ہوگا۔ اس میں تین باتیں مجھ سے زیادہ پائی جائیں گی کہ وہ اہل عیال کا بوجھ اٹھائے گا، کھیتی باڑی کرے گا اور درخت لگانا پسند کرے گا۔ آپ کی ولادت کے بعد حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ کا حرف حرف سچ ثابت ہوا، اور آپ کی سیرت مقدسہ میں وہ تمام باتیں واضح دکھائی دیتی ہیں جو حضرت بایزید نے ارشاد فرمائی تھیں۔ 
حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ اوائل عمری سے ہی نیک طینت اور بمائلِ للّہیت تھے۔ آپ نیک لوگوں کی صحبت اختیار فرماتے، ہمیشہ باوضواور عبادت و ریاضت میں مصروف رہتے تھے۔ آپ نے علوم شریعت میں اس قدر کمال حاصل کیا کہ اس دور کے اجل علماء اور فقہاء کے فہرست میں شامل ہوئے اور سلوک و طریقت میں اس قدر بلندی پائی کے آسمانِ تصوف کے نیر تاباں قرار پائے۔ تصوف و روحانیت میں آپ کے فیض کا سر چشمہ حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ تھے، انھیں کی قبر انور سے آپ کو باطنی فتوحات اور مکاشفات نصیب ہوئے۔ دراصل آپ کی ولادت سے87 یا90 سال (یادوسرے قول پر 120سال ) قبل حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ہوچکی تھی لہٰذا آپ نے بطریقِ نسبتِ اویسی ان سے فیض حاصل کیا۔ آپ جب پہلی مرتبہ حضرت بایزید علیہ الرحمۃ کے مزار پر انوار پر فاتحہ کے لئے حاضر ہوئے تو دل کی کیفیت یکسر تبدیل ہونے لگی اور سمجھ گئے کہ میرا مقصود ازلی یہیں پر ہے۔ لہٰذا اس کے بعد بلا ناغہ آپ نو میل کا فاصلہ طے کرکے حضرت کے مزار پہ حاضر ہوتے اور نمازِ عشاء سے لیکر فجر تک وہیں رہ کر عبادت کرتے اور جب واپس گھر لوٹتے تو سفر کا آغاز سورہ فاتحہ سے کرتے اور گھر پہنچنے تک مکمل قرآن پاک ختم فرما لیتے (آپ کا یہ معمول 20 سال پر محیط ہے)۔اللہ کی بارگاہ میں التجا کرتے کہ ’’ باری تعالیٰ جو منزل اور مرتبہ بایزید کو عطا فرمایا ہے اس سے کچھ حصہ مجھے بھی عطا فرما۔‘‘21 سال کی طویل مدت گزرنے کے بعد حضرت کے مزار سے آواز آئی کہ تم لوگوں کی تربیت کرو اور تم سے انفاس قدسیہ اور مخلوق خدا اکتسابِ فیض کرے۔ بقول مولنا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ:
بانگش آمد از حظیرۂ شیخ حی
ھا انا اَدعُوکُ کَی تَسعٰی الیّ
حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ زہد و ورع، تقویٰ و عبادت میں کسی کو بھی اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ امورِ شریعت پہ یوں کاربند تھے کہ از سرِ مو بھی تجاوز نہ فرماتے۔ ساری ساری رات ذکر الہی میں مشغول رہتے  اور عشاء کے وضو کے ساتھ ہی نمازِ فجر کی نماز ادا کرتے۔ چالیس سال تک آپ نے اپنے سر کے نیچے تکیہ نہ رکھا۔ چالیس کی طویل مدت گزر جانے کے بعدایک دن اپنے مرید سے فرمایا کہ مجھے تکیہ دو میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔ پوچھا گیا کہ آج آرام کی طلب کیسے ہوئی تو فرمایا:آج میں نے خدا کی بے نیازی و استغنا کا مشاہدہ کرلیا ہے۔ حتیٰ کہ تیس سال تک اللہ کے خوف کے سوا میرے دل میں کوئی خیال پیدا نہیں ہوا۔ عاجزی و انکساری اور سادگی آپ کی ذات کا وصف خاص تھا۔ ایک مرتبہ مریدین کے سمیت آپ کو سات دن تک کھانا میسر نہ ہوا، آخر کار ایک آدمی آٹے کی بوری اور ایک بکری لے آیا۔ آکر کہا کہ یہ چیزیں میں صوفیا کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔آپ نے اپنے رفقاء و مریدین کو  فرمایا کہ مجھ میں صوفی سی صلاحیت نہیں ہے  اگر تم میں سے کوئی صوفی ہے تو جا کر وصول کرلے۔ لہٰذا ان مریدین میں سے کوئی بھی نہ اٹھا۔ ایک دفعہ آپ سے پوچھاکہ صوفی کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا کہ صوفی جبہ و مصلے سے نہیں ہوا کرتا صوفی رسم وعادات سے صوفی نہیں ہوتا بلکہ صوفی وہ ہوتا ہے کہ خود کچھ نہ ہو وہ یہ بھی فرماتے کہ انسان صوفی اس دن ہوتا ہے کہ اس کو آفتاب کی حاجت نہ ہواور اس رات ہوتا ہے کہ اس کو چاند، ستارہ کی ضرورت نہ ہو اور نیستی یہ ہے کہ ہستی کی حاجت نہ ہو۔ اسی طرح نفس کی مخالفت کا آپ کا شعارِ عظیم  تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’میں نے  ۳۷ سال سچائی کیساتھ یوں زندگی بسر کی کہ  ایک سجدہ بھی شریعت کے خلاف نہیں ادا  ہوا۔اور نفس کی موافقت میں ایک سانس بھی نہیں لیا۔
 ایک مرتبہ کسی شخص نے آپ سے دعوت الی اللہ کی درخوست چاہی تو فرمایا: جب تم مخلوق کو دعوت دینے کا ارادہ کرو تو سب سے پہلے خود کو دعوت دینا۔ اس شخص نے کہا کیا کوئی خود کو بھی دعوت دیتا ہے؟ تو فرمایا: یقیناً۔ اس کی صورت یہ کہ جب کوئی دوسرا تمہیں دعوت دے تو  تم اسے ناپسند کرتے ہو۔ جب تک تم خود کو دعوت دینے والے نہیں بنو گے تب تک تم دعوت الی اللہ دینے والے نہیں بن سکتے۔
آپ انتہائی خدا ترس اور مخلوق خدا پہ رحم فرمانے والے تھے۔ ایک بار شیخ  ابو الحسن خرقانی  گندم خرید کر گھر لائے، جب گندم کی گٹھڑی کو کھولا  تو اس  میں ایک چیونٹی چلتی ہوئی نظر  آئی، اسے دیکھ کر آپ پریشان ہوگئے۔ آپ نے آرام سے گٹھڑی کو باندھا اور دوبارہ اسی گاؤں میں لے کر چلے گئے جہاں سے گندم خریدی تھی۔  اور اسی مقام پر جا کر اسے کھول دیا جب چیونٹی اپنی مرضی سے نکل کر چلی گئی تو دوبارہ اس گٹھڑی کو باندھا اور گندم گھر لے آئے۔ عالمِ پریشانی میں  فرما رہے تھے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو کس قدر تکلیف دی ہے۔
حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ ناز میں اس دور کے  مقتدر علماء اور کبار صوفیا کرام تشریف لا کر اکتسابِ فیض کرتے۔ حضرت ابو القاسم  قشیری، شیخ  ابو سعید ابو الخیر، شیخ الاسلام خواجہ عبد اللہ انصاری ہروی، شیخ احمد علی شعیب، شیخ بو علی سینا حکیم ناصر خسرو قبادیانی اور سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین جیسی بلند پایہ شخصیات آپ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئیں۔ حضرت  شیخ ابو سعید ابو الخیر مہنی علیہ الرحمہ جب آپ کی بارگاہ میں حاضر خدمت ہوئے  تو کئی روز وہیں قیام کیا اور بعد میں فرمایا کرتے:’’میں ایک کچی اینٹ تھا مگر جب خرقان گیا تو وہاں سے گوہر بن کر آیا’’۔ اسی طرح حضرت ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ نے جب ملاقات کی تو اس کی روداد یوں بیان کیا کرتے تھے۔‘‘  جب میں ملک خراسان میں پہنچا تو اس  پیر کی ہیبت سے میری فصاحت و بلاغت  نے جواب دے دیا  اور زبان بند ہوگئی۔ مجھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ شاید مجھ سے ولایت سے معزول کر دیا گیا۔ سلطان محمود غزنوی نے آپ کا شہرہ سنا اور خرقان پہنچ کر پیغام بھیجا کہ حضور میرے دربار میں ملاقات کے لیے تشریف لائیں مگر آپ نے انکار کردیا۔ خود سلطان ملاقات کے لیے خانقاہ عالیہ میں حاضر ہوا، لیکن آپ اس کی تعظیم کے لیے نہ اٹھے۔ البتہ جب عقیدت و محبت سے سرشار ہوکر اور تبرک کے طور پر پیراہن مبارک لیکر ادب سے جانے کے لیے اٹھا تو آپ  نے اٹھ کر روانہ فرمایا۔ سلطان نے وجہ پوچھی تو فرمایا پہلے میں تیری بادشاہی کے لیے نہ اٹھا اور اب تیری درویشی کے لیے کھڑا ہوا ہوں۔ کہتے ہیں کہ جب سومنات پر چڑھائی کے وقت سلطان شکست کھانے لگا تو اضطراب کی حالت میں حضور ابوالحسن خرقانی کا پیراہن مبارک ہاتھ میں لیکر بارگاہ الٰہی میں یوں ملتجی ہوئے:’’الٰہی بآبروئے ایں خرقہ بریں کفار ظفردہ ہرچہ ازینجا غنیمت بگیرم بدرویشاں بدہم’’خدایا اس خرقہ کی آبرو کے صدقے میں مجھے ان کافروں پر فتح عطا کر، مجھے یہاں سے جو مال غنیمت ملے گا درویشوں کو دیدوں گا۔
معرفت و طریقت یہ عظیم ستارہ کا وصال خرقان میں عاشورہ کے دن 425ھ میں ہوا 10 محرم الحرام425 ہجری بمطابق 5دسمبر1033ء کو عالمِ دنیا سے روپوش ہوا۔جب وفات کا وقت قریب تھا تو وصیت فرمائی کہ میری قبر 30 گز گہری کھودناتا کہ حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ کی قبر مبارک سے اونچی نہ رہے۔
٭…٭…٭