• اولیائے کرام علیہم الرحمۃ

سیدنا معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ

دوسری صدی ہجری کے عظیم المرتبت بزرگ شخصیت
سیدنا معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ
تحقیق وترتیب : مفتی محمد زمان سعیدی رضوی 
 

 

مقتدائے شریعت ، پیشوائے طریقت سیدنا معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ اپنے عہد کے بہت بڑے صاحب کمال بزرگ ، اہل معرفت کے امام ، علوم ظاہری وباطنی میں یگانہ روزگار ، مرجع خلائق اور عارفِ کامل تھے ۔آپ کا اسم گرامی ’ معروف‘کنیت ’ ابومحفوظ ‘ اور ’ ابوالحسن ‘مشہور ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق120ہجری بغداد کے محلے کرخ میں آپ کی ولادت ہوئی ، اپنی جائے پیدائش کی نسبت سے ’ کرخی‘ کہا جاتا ہے ۔
    آپ کے والدین آتش پرست تھے انہوں نے آپ کو اپنے طریق پر تعلیم دینی چاہی معلم کے پاس مدرسہ میں بھیجا معلم نے ہر چند سعی کی کہ آپ ’’  ثَالِثُ ثَلثۃ‘‘کہیں مگر آپ ہر بار ’’ھُوَاللّٰہُ الْوَاحِدُ‘‘کہتے تھے ۔ معلم نے آپ کو خوب زدو کوب کیا جس کی بنا پر آپ ادارہ چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ماں باپ نے ہرچند تلاش جاری رکھی مگر پتہ نہ چلا ۔آخر ماں باپ تھے، دعائیں مانگنے لگے کہ بیٹا آجائے ‘ وہ جس مذہب پر لوٹے گا ہم اس کی موافقت میں وہی مذہب قبول کرلیں گے ۔ اِسی ہجرت کے دوران آپ گل گلستانِ رسالت ، امام المسلمین سیدنا امام علی بن موسی رضا علیہما السلام کی خدمت میں پہنچے اور مشرف بہ اسلام ہوگئے ۔مسلمان ہو کر کچھ مدت بعد آپ اپنے گھر گئے اور دروازہ پر آوازدی پوچھا گیاکون ہے ؟جواب ملا: معروف ۔پوچھا کس دین کو اختیار کئے ہوئے ہے ؟فرمایا:دین حنیف یعنی رسول کریمﷺ کا دین اختیار کر چکا ہوں ۔خداجانے ‘ اس جواب میں کیا اثر تھا کہ نہ صرف یہ کہ ماں باپ نے گھر میں بلا لیا بلکہ اتنے متأثر ہوئے کہ خودہی بولے کہ جب بیٹے نے اسلام قبول کر لیا تو اب ہم بھی اپنے دین پر رہنا نہیں چاہتے چنانچہ انہوں نے بھی اسلام قبول کرلیا ۔
    آپ علماء ومحدثین کی ایک بڑی جماعت سے مستفیض ہوئے، تذکرہ نگاروں کے نزدیک آپ ایک مدت تک شیخ داؤد طائی  کی مصاحبت میں رہے ۔آپ نے کثیر تعداد میں احادیث کا سماع فرمایا ہے مگر عبادت وریاضت اور ذکر وفکر میں مشغول ہونے کی بناء پر روایت کی طرف التفات نہیں ہوپایا۔آپ علوم وفنون میں ’’ سید القوم ‘‘ کہلائے ۔ علماء وزُہاد کی ایک جماعت ہمیشہ اِن کے اطراف میںموجود رہتی اور ان کی زیارت سے کسب ِ فیض کرتی تھی ، جن میں حضرت سری سقطی ، امام احمدبن حنبل ،بشربن حارث اور یحییٰ بن معین وغیرہم جیسے مشہور اکابرین وبزرگان ِ دین شامل ہیں۔بعض عرفاء کے نزدیک آپ ان اولیائے کرام میں سے ہیں جن پر کثرت نوافل سے زیادہ ذکر وفکر کا غلبہ تھا۔
     حلیۃ الاولیاء میں ہے ان کے ایک معاصر راوی ابوبکر بن ابی طالب  فرماتے ہیں کہ میں حضرت معروف کرخی کے پاس ان کی مسجد میں گیا۔ جب انہوں نے اذان شروع کی تو میں نے دیکھا کہ اُن پر اضطراب کی ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور جب اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہا تو ان کی ریش مبارک اور ابرو تک کے بال کھڑے ہوگئے اور وہ بے قابوہوکر اس درجہ جھکنے لگے کہ مجھے اندیشہ ہوا کے وہ اذان پوری بھی کرسکیں گے یا نہیں۔ 
    آپ کا معمول تھا کہ جو کوئی دعوت دیتا، سنت کے مطابق اس کی دعوت قبول فرمالیتے۔ اِسی حلیۃ الاولیاء میں ہے: ایک مرتبہ ایک ولیمہ میں تشریف لے گئے تو وہاں انواع واقسام کے پر تکلف کھانے چنے ہوئے تھے۔وہاں ایک اور صوفی بزرگ موجود تھے، انہوں نے یہ پر تکلف کھانے دیکھے تو حضرت معروف کرخی سے فرمایا: آپ دیکھ رہے ہیں، یہ کیا ہے؟‘‘ ان کا مقصد یہ تھا کہ اتنے پر تکلف کھانے مناسب نہیں، حضرت معروف نے فرمایا کہ ’’میں نے یہ کھانے بنانے کو نہیں کہا تھا‘‘ پھر جوں جوں مزید کھانے آتے رہے وہ صاحب اپنی سابقہ شکایت دہراتے رہے۔ آخر میں حضرت معروف کرخی  نے فرمایا: اَنَا عَبْدٌ مُدَبِّرٌ آکِلُ مَا یُطْعِمُنِیْ وَاَنْزِلُ حَیْثُ یَنْزِلُنِیْ۔میں تو غلام ہوں، میرا آقا جو کچھ کھلاتا ہے کھاتا ہوں اور جہاں لے جاتا ہے چلا جاتا ہوں۔ 
    ابو نعیم لکھتے ہیں :’’ایک مرتبہ آپ کہیں تشریف لے جارہے تھے،راستہ میں دیکھا کہ ایک سقہ آواز لگارہا ہے، جو مجھ سے پانی پیئے، اللہ اس پر رحم کرے، حضرت معروف نے اس کی آواز سنی تو آگے بڑھ کر اس سے پانی مانگا اور پی لیا۔ کسی نے پوچھا کہ آپ تو روزے سے تھے۔ فرمایا کہ ہاں! لیکن میں نے سوچا کہ شاید اس اللہ کے بندے کی دعاء مجھے لگ جائے۔ (روزہ نفلی تھا، بعد میں قضا کرلی ہوگی)۔
    صفۃ الصفوۃ میں علامہ عبدالرحمن ابن الجوزی لکھتے ہیں :’’ ایک مرتبہ آپ دجلہ کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے سے ایک کشتی گزری جس میں کچھ بے فکر نوجوان گاتے بجاتے جارہے تھے۔ کسی نے حضرت معروف سے کہا کہ دیکھئے یہ لوگ دریا میں بھی اللہ کی نافرمانی سے باز نہیں آتے، ان کے لئے ضرر کی دعا کردیجئے اس پر آپ نے ہاتھ اٹھائے او ردعا فرمائی کہ ’’اے میرے پروردگار! میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ جس طرح آپ نے ان نوجوانوں کو دنیا مسرتیں بخشی ہیں ان کو آخرت میں بھی مسرتیں عطا فرمائیے۔‘‘ حاضرین نے کہا کہ ہم نے تو آپ سے بددعا کے لئے کہا تھا۔ فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں آخرت میں مسرتیں عطا فرمائیں تو ان کے دنیوی اعمال سے ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔ اس میں تمہارا تو کوئی نقصان نہیں۔ ‘‘
    آپ کا وصال2 محرم الحرام 200ہجری کو ہوا۔آپ کا مزار شریف بغدادِ معلی میں زیارت گاہِ خلائق ہے۔حضرت خطیب بغدادی  فرماتے ہیں: ’’آپ کی قبرمبارک حاجتیں اور ضرورتیں پوری ہونے کے لئے مجرّب (یعنی آزمودہ)ہے۔‘‘
    آپ کے اقوال اسلامی تعلیمات اور دینی حکمتوں سے بھرپور مطالب ومعانی پر مشتمل ہیں ،درسِ عبرت اور سبق آموزی کے لیے چند اقوال پیش خدمت ہیں :
    ۱۔ دولت کے بھوکے کو کبھی حقیقی راحت نہیں مل سکتی ۔
     (۲) بغیر عمل جنت کی آرزو گناہ ہے ، بغیر ادائے سنت امید ِشفاعت رکھنا محض غرور اور دھوکا ہے اوربغیر فرماںبرداری کے امیدوار ِرحمت ہونا محض جہالت اور حماقت ہے ۔
    (۳)حق تعالیٰ جب کسی بندے کی بھلائی چاہتا ہے تو حسن ِ عمل کا دروازہ اُس پر کھول دیتا ہے ۔
    (۴) آپ سے پوچھا گیا کہ مصائب ِ دنیا کی کیا دَوا ہے ؟ فرمایا : خَلق سے دور اور خُلق سے نزدیک رہنا۔
    (۵) حب ِ دنیا ترک کردو۔ کیوں کہ اگر دنیا کی ذرا سی چیز بھی تمہارے دِل میں ہوگی تو سجدہ کرنے میں بھی تم اس کو فراموش نہ کرسکوگے۔
    ( مصادر: حلیۃُ الاولیاء، صفۃ الصفوۃ ، کشف المحجوب ، مناقب معروف کرخی علامہ ابن الجوزی )