• اولیائے کرام علیہم الرحمۃ

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ

یکتائے زمانہ،عالم الآفاق،مجاہد اسلام 
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ 

اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اُن کے تذکرے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے ،اُمت مسلمہ کے امام، مجاہدین کے سردار حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ بھی اُنہی شخصیات میں سے ہیں۔ان کے بارے میں شارح مسلم علامہ نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ وہ شخصیت ہیں جن کی جلالت ِ علم پر اُمت کا اتفاق ہے ،وہ ایسے شخص ہیں جن کے تذکرے سے رحمت نازل ہوتی ہے،اور جن سے محبت پر مغفرت کی اُمید کی جاتی ہے۔(تہذیب الاسماء)
آ پ کا نام ’ عبداللہ ‘ والد کا نام ’ مبارک ‘ تھا۔ آپ کی کنیت’ابو عبد الرحمن‘ ہے۔ آپ کے والد ترکی النسل تھے اور قبیلہ نبو حنظلہ جو اہل ہمدان سے تعلق رکھتا تھا اسکے آزاد کر دہ غلام، آپ کی والدہ خوارزمیہ تھیں۔ آپ کی ولادت 118ھ مرو میں ہوئی، والدین نے اپنے اس ہونہارفرزند کی بڑے اہتمام سے تعلیم و تربیت کی۔والد محترم نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا اور اس میدان میں خوب شہرت حاصل کی۔آپ اپنی عمر کے ابتدائی زمانے کچھ غفلت میں پڑگئے تھے۔بڑے رئیس زادے تھے پیسے نے اثر دکھایا تو لہو و لعب میں مشغول ہو گئے۔ مگر جب عمر بیس سال کی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر توبہ، محبت، معرفت، علم اور جہاد کا دروازہ کھول دیا۔سب سے پہلے سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ قدس سرہ العزیز کے حلقہ ٔ درس میں شامل ہوئے اور فقہ میں عبور حاصل کیا۔سیدناگنج بخش داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں ان کا تذکرہ بڑے صوفیا کرام میں فرمایا ہے۔اسی طرح جب اُمت مسلمہ کے فقہا، حفاظ اور محدّثین کا تذکرہ آتا ہے تو اس میں بھی حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ پہلی صف میں شمار کئے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو گوناگوں صفات اور خوبیوں سے نوازا تھا۔ کچھ تفصیل درج ذیل ہے ۔
مثالی سخاوت:
آپ بڑے مال دار تھے۔وراثت میں کافی مال ملا تھا اور تجارت بھی کرتے تھے تاکہ فقرا پر خرچ کریں، مجاہدین کو کھلائیں پلائیں اور طلبہ حدیث کی خدمت کریں، حج کریں اور لوگوں کو حج کروائیں اور جہاد میں اپنا اور اپنے رفقا کا خرچہ برداشت کریں۔ایک بار مشہور تارک الدنیا بزرگ حضرت فضیل بن عباس رحمۃ اللہ علیہ سے ارشاد فرمایا:’’ اگر آپ اور آپ جیسے لوگ نہ ہوتے تو میں تجارت نہ کرتا۔‘‘(تہذیب التہذیب)یعنی آپ جیسے لوگ دنیا چھوڑ کر عبادت اور دین کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔میں آپ کی خدمت کرنے کے لئے تجارت کرتا ہوں،اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے مال میں خوب برکت عطا فرمائی تھی ۔وہ خیر کے کاموں میں خرچ کرتے جاتے تھے اور اُن کا مال اور بڑھتا جاتا تھا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ ہر سال فقرا کرام پر ایک لاکھ درہم خرچ کرتے تھے۔ایک سال جہاد پر جاتے اور سارا خرچہ خود کرتے اور دوسرے سال حج پر جاتے تب بھی اپنا اور اپنے رفقا کا خرچہ خود اٹھاتے۔جہاد میں مال غنیمت بھی نہیں لیتے تھے اور حج پر اپنے رفقا کو اچھے کھانے کھلاتے اور گھر والوں کے لئے سامان بھی خرید کر دیتے تھے۔کبھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے، ہمیشہ علما ،طلبہ اور دیگر مہمانوں کو بلاتے اور بڑے بڑے دستر خوان بچھا کر انھیں کھانا کھلاتے اور طرح طرح کے فالودے بنوا کر انھیں پیش کرتے۔انھیں اپنے والد محترم کی وراثت میں سے جو چھ لاکھ درہم ملے ان میں سے بھی چار لاکھ ساٹھ ہزار درہم خیر کے کاموں میں خرچ کر دیئے۔
حُسنِ اخلاق:
حضرت عبدا للہ بن مبارک رحمۃاللہ علیہ حُسنِ اخلاق میں اپنی مثال آپ تھے۔اُن کے اخلاق بناوٹی نہیں تھے کہ لوگوں میں شہرت اور عزت حاصل کرنے کے لئے ہوںبلکہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی فطرت اور خصلت ہی ایسی بنائی تھی کہ آپ حُسنِ اخلاق کا پیکر نظر آتے تھے اور پھر امانت دار اور متقی والدین کی تربیت نے بھی خوب رنگ جمایا۔مشہور محدّث حضرت اسماعیل بن عیاش فرماتے ہیں:
روئے زمین پر عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ جیسا اُن کے زمانے میں کوئی نہیں ہے اور میرے علم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے خیر کی جتنی بھی عادتیں اور خصلتیں پیدا فرمائی ہیں۔اُن سب سے عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کو حصہ عطاء فرمایا ہے( سیر اعلام النبلاء)
حضرت نعیم بن حماد فرماتے ہیں:میں نے عبدالرحمن بن مہدی سے پوچھا کہ عبداللہ بن مبارک اور سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہما میں سے کون افضل ہے؟:فرمایا عبداللہ بن مبارک!میں نے عرض کیا لوگ آپ کی یہ بات نہیں مانتے ،ارشاد فرمایا لوگوں نے قریب سے نہیں دیکھا، ورنہ عبداللہ بن مبارک جیسا کوئی نہیں ہے۔(تہذیب الاسماء)
مثالی تقویٰ:
عبادت اور تقویٰ کے معاملے میں حضرت عبدا للہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ پر اللہ تعالیٰ کا بہت فضل تھا۔جہاد میں نکل کر ساری ساری رات عبادت کرنا۔مجاہدین کے لشکر کی پہرے داری کرنا۔سفر کے دوران اپنے کجاوے میں نفل نماز کا مسلسل اہتمام کرنا۔راتوں کو اپنے رفقا کو سُلا کر خود چھپ کر نماز ادا کرنا۔سفر کے دوران اپنے رفقا کو قیمتی حلوے کھلانا اور خود روزے سے رہنا۔اللہ تعالیٰ کے خوف سے اتنا رونا کہ داڑھی مبارک تر ہو جاتی اور پھر اپنے تقوے اور عبادت کو لوگوں سے چھپانا۔
حضرت احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کواللہ تعالیٰ نے اتنا اونچا مقام اُن کی مخفی عبادت کی وجہ سے عطا فرمایا ہے اور خود حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے تھے کہ تم میں سے جو اللہ تعالیٰ سے جتنا ڈرتا ہے وہ اتنا بڑا عالم ہے۔آپ جب بغداد تشریف لائے تو وہاں کے حکمران کچھ ظالم تھے۔آپ کو شبہ ہوا کہ میرا اس شہر میں قیام کرنا ٹھیک ہے یا نہیں؟چنانچہ آپ روزانہ ایک دینار صدقہ کرتے تھے تاکہ اس شہر میں قیام کا جو گناہ ہے اُس کا کفارہ ہو جائے ایک بار آپ نے ملکِ شام میں ایک شخص سے اُس کا قلم عاریۃً لیا اور اُسے واپس کرنا بھول گئے اور خراسان تشریف لے گئے خراسان پہنچ کر آپ کو یاد آیا تو صرف قلم واپس لوٹانے کے لئے شام کا سفر فرمایا۔ سفرِ وفات میں آپ کو ستّو پینے کی رغبت ہوئی۔رفقا نے ستّو تلاش کیا تو وہ صرف ایک آدمی کے پاس تھا جو بادشاہ کے ہاں ملازم تھا۔رفقا نے آپ کو صورتحال بتائی تو آپ نے لینے سے منع فرما دیااور ستّو پئے بغیر اس دنیا سے تشریف لے گئے جی ہاں وہ شخص جس نے ساری زندگی لوگوں کو طرح طرح کے کھانے کھلائے اور مشروبات پلائے وہ اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں ستّو بھی نہ پی سکا۔اسے کہتے ہیں امانت اور اسے کہتے ہیں تقویٰ کہ کسی حال میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کے خوف سے غافل نہ ہواور نہ ہی کسی مجبوری کا بہانہ بنا کر مشتبہ چیزوں میں منہ مارے۔
سرکاری عہدوں سے پرہیز:
اُس زمانے کے حکام ہمارے دور کے حکمرانوں سے بہت نیک، متقی اور غیرت مند تھے۔وہ جہاد کے لئے خود بھی نکلتے تھے اور اسلامی لشکروں کو بھی دور دراز علاقوں میں جہاد پر بھیجتے تھے مگر اس کے باوجود حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ان حکام سے دور رہے اور انھوں نے سرکاری عہدے قبول نہ کرنے میںاپنے محبوب استاذوشیخ سیدناامام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی مکمل پیروی کی اورآپ ہمیشہ سیدنا اعظم امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی اس بات پر تعریف کرتے تھے کہ انھوں نے قاضی القضاۃ کے عہدے کو ٹھکرایا۔چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ متقی کوئی نہیں دیکھا انھیں کوڑوں اور اموال کے ذریعہ آزمایا گیا:‘‘(تاریخ بغداد)
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ حکمرانوں سے دور دور رہے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں لوگوں کے دلوں پر حکومت عطا فرما دی ایک بار خلیفہ ہارون الرشید رقّہ شہر میں تھے،آپ بھی وہاں تشریف لے آئے تو لوگ اُن کی زیارت کے لئے ٹوٹ پڑے،زیارت کرنے والوں کا اتنا مجمع تھا کہ لوگوں کے جوتے ٹوٹ گئے اور فضا غبار سے بھر گئی۔ہارون الرشید کی ایک باندی نے خلیفہ کے محل کے بُرج سے یہ منظر دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟اُسے بتایا گیا کہ خراسان کے ایک عالم جن کا نام عبدا للہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ہے’’رقّہ‘‘ تشریف لائے ہیں۔وہ کہنے لگی اللہ کی قسم بادشاہت تو یہ ہے اس کے مقابلے میں ہارون الرشید کی بادشاہت کیا ہے کہ لوگوں کو اپنے نگرانوں کے ذریعہ جمع کیا جاتا ہے۔
سفر آخرت:
آپ کا انتقال جہاد سے واپسی پر حالت سفر میں ہواجب موت کا وقت قریب آیا تو اپنے آزاد کردہ غلام ’’نصر‘‘ سے فرمایا:میرا سر مٹی پر رکھ دو، غلام رونے لگا:ارشاد فرمایا کیوں روتے ہو؟وہ کہنے لگا مجھے یہ بات رُلا رہی ہے کہ آپ کیسی نازو نعمت والی زندگی میں تھے اور اب فقیری اور مسافری کی حالت میں اس دنیا سے جا رہے ہیں۔ارشاد فرمایا:چپ ہو جاؤ میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ مجھے اغنیا والی زندگی اور فقرا والی موت عطا فرمائے۔پھر ارشاد فرمایا:’’اب مجھے کلمے کی تلقین کرتے رہو، کوئی اور بات نہ کرو‘‘۔(ابن عساکر)
جواہر المضیہ کی تحقیق کے مطابق ماہِ رمضان المبارک 161ہجری 63برس کی عمر میںآپ نے انتقال فرمایا ۔ بالجملہ !اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ ابنِ مبارک رحمۃ اللہ علیہ کو بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا، مال ودولت کے ساتھ جود وسخا جیسی اہم نعمت بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو وافر مقدار میں عطا کی تھی، جس کا آپ موقع بموقع استعمال فرمایا کرتے تھے، نیز اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم وعمل جیسی اہم نعمت سے بھی سرفراز فرمایاتھا، جس کا آپ نے بخوبی لحاظ کیااور اس کی اشاعت میں بھر پور حصہ لیا، آپ کا زہد وتقویٰ انتہائی مثالی تھا، جس پر علماء وصلحا ء بھی رشک کیا کرتے تھے،لہٰذا آپ کی زندگی میں انسانی طبقات کے لیے بے شمار نمونہ،عبرتیں اور اسباق موجود ہیں، جن سے استفادہ کر کے زندگی گزارنا چاہئے، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین!