• اولیائے کرام علیہم الرحمۃ

شہزادہ غوث اعظم شیخ شرف الدین عیسی جیلانی رحمۃ اللہ علیہ

 

شہزادہ غوث اعظم شیخ شرف الدین عیسیٰ جیلانی رحمۃ اللہ علیہما

قطب ِ ربانی ، محبوبِ سبحانی ،غوث الثقلین ،سید الاولیاء سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نہ صرف جامع علوم وفضائل تھے بلکہ منبع رُشد وہدایت تھے ۔ آپ آسمان ولایت کے مہر عالم تاب تھے ، آپ کی رفعت ِ شان اور علومرتبت کا انداز اِس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ہزارہا اولیاء، صلحاء ، علماء اور اکابر ِامت نے بارگاہِ غوثیت مآب رضی اللہ عنہ میں کسی نہ کسی رنگ میں ہدیہ عقیدت پیش کیا ہے ۔قلم کویارا نہیں کہ ان تمام بزرگان ِ دین کے فرمودات اور نذرانہائے عقیدت کا احاطہ کرسکے ،ظاہر ہے کہ اِس پروانہ شمع نورِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ عالم گیر ضیاء باریاں جن سے عالم اسلام کی روحانی بارگاہیںآج بھی منور ہیں ، کسی تعارف کی محتاج نہیں۔لیکن ذیل کی سطور میں ہمارا مقصور آپ رضی اللہ عنہ کے شہزادوں میں ایک جلیل القدر صاحبزادے کے احوال وآثار سے کچھ گلہائے عقیدت اپنے قارئین کرام کی نذر کرنا ہے ۔
مختلف کتب ِتذکار وسوانح کے مطابق سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے مختلف اوقات میں چارشادیاں کیں ۔اِن شادیوں کے اوقات اور ازواج کے اسمائے گرامی کی تصریح کتب میں نہیں کی گئی البتہ قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اپنی عائلی زندگی کا آغاز اُس وقت کیا جب آپ اپنے مجاہدات وریاضات کی تکمیل کرچکے تھے ۔طالب ہاشمی اپنے کتاب ’ سوانح سیدنا غوث اعظم ‘میں آپ کا ایک فرمان نقل کرتے ہیں :سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ مدت سے میں اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نکاح کا ارادہ رکھتا تھا لیکن میرے مشاغل اِس ارادہ کے بروئے کار آنے میں مانع تھے ۔ مجھے اندیشہ تھا کہ عائلی زندگی کی زنجیریں میرے اوقات واشغال میں حارج ہوں گی لیکن کل امر موھون باوقاتھا (یعنی ہر کام کا ایک وقت معین ہوتا ہے ) کے مصداق جب وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے چار بیویاں عطا کیں اور ان میں ہر ایک کو مجھ سے والہانہ محبت تھی ۔‘‘
آپ کی تمام ازواج اخلاق ِ حسنہ کا پیکر تھیں ۔ عبادت وریاضت سے کمال شغف رکھتی تھیں اور صبر وقناعت سے کامل طور پر بہرہ ور تھیں ۔ ان ازواج سے اللہ تعالیٰ نے مختلف اوقات میں آپ کو شہزادے اور شہزادیاں عطافرمائیں ۔سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی اولاد واحفاد کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ فرمائی ۔ آپ کے احوال وآثار اور تعلیمات وارشادات پر مشہور ومعروف کتاب حضرت ابوالحسن نور الدین علی بن یوسف الشطنوفی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی703ہجری کی تصنیف ’’ بہجۃ الاسرار‘ ‘ہے ۔ اِس ضخیم کتاب کی تلخیص حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی1052ہجری نے ’’ زبدۃ الآثار‘‘کے نام سے کی ۔حضرت شیخ محقق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے تمام شہزادے علم وفضل میں یکتائے روزگار تھے ۔اُن سے مختلف النوع کرامات وکمالات ظاہر ہوتی رہیں ‘‘ ۔ سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے تمام شہزادے آسمان ِ علم وفضل پر آفتاب بن کر چمکے اور اپنے آپ کو جلیل القدر والد ِ گرامی کا جانشینی کا اہل ثابت کردیا ۔کتب ِ تذکار میں آپ کی اولادِ نرینہ میں درج ذیل شہزادوں کے اسماء گرامی مشہور ہیں۔(۱) شیخ الانام سیف الدین ابوعبداللہ عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ ۔(۲) امام الائمہ شرف الدین ابومحمد ابوعبدالرحمن عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ (۳)الامام الجلیل شمس الدین ابومحمد ابوبکر رحمۃ اللہ علیہ جن کی کنیت ابوبکر عبدالعزیز ہے ۔(۴)الشیخ الامام جمال الدین ابوعبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ جن کی کنیت ابوالفرح عبدالجبار تھی ۔(۵)شیخ الاسلام تاج الدین ابوبکر عبدالرازق رحمۃ اللہ علیہ (۶) الشیخ الجلیل،زین الفقہاء ابواسحاق ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ ،(۷)الشیخ الفاضل ابوزکریا یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ (۸)الشیخ الفاضل ابوالفضل شیخ محمد رحمۃ اللہ علیہ ۔(۹)الشیخ الامام ضیاء الدین ابونصر موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ ۔
دارالشکوہ قادری اور حضر ت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہما کی تحقیق کے مطابق سیدنا غوث اعظم شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے دوسرے نورِ نظراور ہمارے ممدوح الشیخ شرف الدین ابومحمد ابی عبدالرحمن عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔
حضرت شیخ محقق علیہ الرحمۃ نے آپ کا تذکرہ بڑے شاندار القاب واعزازت کے ساتھ کیا ہے فرماتے ہیں :’’ دوسرے صاحبزادے شیخ الامام الائمہ شرف الدین ابو محمد ابی عبدالرحمن عیسیٰ شرف الاسلام ، جلال العلماء ، سراج العراق والمصر، ذواللسان علی الانسان المتکلمین تھے ‘‘
آپ کی ولادت ِ باسعادت کے متعلق کسی بھی معروف تذکرہ میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ۔تاہم یہ واضح ہے کہ آپ نے حدیث اورفقہ کی تعلیم اپنے والد ِ گرامی سیدنا غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے حاصل کی۔آپ بہت بلند پایہ واعظ، مفتی ، حنبلی المذہب اور صاحب تصنیف بزرگ تھے ،مدتوں درس وتدریس سے وابستہ رہے ۔آپ نے علم تصوف کی مشہورکتب ’جواہر الاسرار‘ اور ’ لطائف الانوار‘تصنیف کیں۔بغداد سے قیام ترک کرکے کچھ عرصہ شام اور پھر ہمیشہ کے لیے مصر میں قیام پذیر ہوگئے ۔ آپ کے قیام سے مصر میں سلسلہ عالیہ قادریہ نے بہت فروغ پایا۔آپ مصر کی جامعات میں ایک عرصہ تک درس حدیث دیتے رہے ۔ایک کثیر تعداد نے آپ نے علوم حدیث حاصل کیے ۔آپ طلباء پر نہایت شفیق تھے ، مخلوق خدا نے آپ سے بہت استفادہ کیا ۔آپ کی مکمل زندگی صبر وضبط کا پیکر تھی۔ آپ کا وعظ مقبول خواص وعوام تھا ۔ فصاحت وبلاغت اور مضمون نگاری میں آپ کو انفرادی مقام حاصل تھا ۔آپ کو شعروسخن کا ذوق بھی رکھتے تھے ۔تفریح الخواطرتصنیف شیخ اربلی میں بطور نمونہ آپ کے دو کلام موجود ہیں ۔چھٹی صدی ہجری کے معروف مؤلف و محقق شیخ ابن نجار کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے مزار ِمبارک کی زیارت کی تو اُس پر لکھا دیکھا کہ 12رمضان المبارک 573ہجری کو آپ نے وفات پائی ۔اللہ تعالیٰ آپ کے صدقے سے عالم اسلام کی خیر فرمائے اور فیضان غوث اعظم رضی اللہ عنہ سے ہمیں حظ ِ وافر عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الکریم الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
(مصادر : بہجۃ الاسرار، زبدۃ الآثار ، سفینۃ الاولیا ، قلائد الجواہر ، سوانح سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ )

تحریر:مفتی محمد زمان سعیدی رضوی