• اولیائے کرام علیہم الرحمۃ

 غوثِ اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ 

شہنشاہِ بغداد  غوثِ اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ 

تحقیق وترتیب :محمد عقیل شہباز

غوث اعظم بمن بے سرو ساماں مددے
قبلہ دیں مددے کعبۂ ایماں مددے،

پیران ِ پیر ، دستگیرسیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادَ ت یکم رمضان 470ھ جمعۃ المبارک کو جیلان میں ہوئی۔آپ کی کنیت ابومحمد ہے اورمحی الدین، محبوبِ سبحانی، غوث اعظم، غوث ثقلین وغیرہ آپ کے معروف القابات ہیں۔ آپ کے والد بزرگوار کانام سیدنا ابوصالح موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ اور والدہ محترمہ کا نام سیدہ ام لخیرفاطمہ رحمۃ اللہ علیہاہے، آپ والد کی طرف سے حَسَنی اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حُسینی سید ہیں۔کوئی شک نہیں کہ کسی بھی عمارت کی پختگی میں اس کی بنیاد کابہت اہم کردارہوتاہے۔اگر بنیاد کمزور ہو تواس پرقائم شُدہ عمارت بھی کمزورہوتی ہے، اگربنیاد مضبوط ہوتوعمارت بھی پختہ ہوتی ہے۔بالکل اسی طرح گھریلوماحول بچوں کی زندگی پرگہرااثرمرتب کرتاہے۔اگر گھر والے نیک سیرت، خوش اخلاق، نماز وسنت کے پابند ہوں تو ان کے زیرتربیت پلنے والا بچہ بھی ان پاکیزہ صِفات کا حامل ہوتاہے۔ حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ بچپن ہی سے دِین دار و مُقدس گھرانے میں پرورش پانے کی برکت سے پاکیزہ صفات کے حامل تھے، منقول ہے کہ آپ کاسارا گھرانہ علم و فضل،خوف وخشیت، تقویٰ وپرہیز گاری میں اپنی مثال آپ تھا،آپ کے ناناجان،دادا جان،و الد ماجد،والدۂ محترمہ، پھوپھی جان، بھائی اور صاحبزادگان رحمۃ اللہ علیہم اجمعین سب ْ متقی و پرہیزگار تھے، اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کو اَشراف کا خاندان کہتے تھے۔
 جب آپ کی عمر پانچ برس کی ہوئی تو آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو مکتب میں بٹھادیا۔ دس برس کی عمر تک آپ کو ابتدائی تعلیم میں کافی دسترس ہوگئی ۔ آپ 18 سال کی عمر میں حصول علم کی غرض سے بغداد شریف لائے اور چند دن بعد مدرسہ نظامیہ میں داخل ہوگئے۔ یہ مدرسہ دنیائے اسلام کا مرکز علوم و فنون تھا اور بڑے بڑے نامور اساتذہ اور آئمہ فن اس سے متعلق تھے۔طلب علم کے لیے آپ نے جن صعوبتوں اور کلفتوں کو برداشت کیا۔ آج کا لائق سے لائق، محنتی سے محنتی طالب علم بھی اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ دوران تعلیم سیدناغوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ نے ہر علم کے ماہرین فن اور باکمال اساتذہ سے استفادہ کیا۔علم قرأت، علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم لغت، علم شریعت، علم طریقت غرض کوئی ایسا علم نہ تھا جو آپ نے اس دور کے باکمال اساتذہ و آئمہ سے حاصل نہ کیا ہو۔آٹھ سال کی طویل مدت میں آپ تمام علوم کے امام بن چکے تھے اور جب آپ نے ماہ ذی الحجہ 496ھ میں ان علوم میں تکمیل کی سند حاصل کی تو  کرۂ ارض پر کوئی ایسا عالم نہیں تھا جو آپ  کی ہمسری کا دعویٰ کرسکے۔ سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے عمر بھر دینی علوم کی ترویج و اشاعت اور خلق خدا کی اصلاح احوال کا بھرپور کام کیانیز اپنے مرتبہ کی بلندی کا راز بھی علم ہی کو گردانتے۔ جیساکہ آپ کا فرمان ہے :’’میں علم پڑھتے پڑھتے قطبیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوگیا اور تائید ایزدی سے میں نے ابدی سعادت کو پالیا‘‘۔
آپ کی تربیت چونکہ تقویٰ و پرہیزگاری کے سنگم میں ہوئی اس لیے بچپن ہی سے عبادت و ریاضت کے شائق تھے۔آپ کو عبادتِ اِلٰہی سے اس قدر شغف تھاکہ مجاہدات وریاضات کے بعد جب آپ نے احیائے دین کی جدوجہد کا آغاز فرمایا تو اس وقت بھی عبادت کے ذوق وشوق میں بالکل فرق نہ آیا۔آپ ہمیشہ باوضو رہتے،جب حَدَث لاحق ہوتا(یعنی بے وضو ہوتے) تو اسی وقت تازہ وضو فرماتے اور دو رکعت’’تحیۃ الوضو‘‘ پڑھتے۔ شب بیداری کی یہ کیفیت تھی کہ چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے رہے۔ پندرہ برس تک یہ حال رہا کہ عشاء کی نماز کے بعد قرآن شریف پڑھتے پڑھتے صبح کر دیتے تھے۔ اکثر ایک تہائی رات میں دو رکعت نفل ادا کرتے ہر رکعت میں سورۃالرحمن یا سورۃ المزمل کی تلاوت کرتے، اگرسورۃ الاخلاص پڑھتے تو اُس کی تعداد سو بار سے کم نہ ہوتی، اگر بتقاضائے بشریت سونا ضروری ہوتا تو اول شب میں تھوڑا سا سو جاتے پھر جلد ہی اٹھ کر عبادت الہٰی میں مشغول ہو جاتے، غرض آپ کی راتیں مراقبہ، مشاہدہ اور یادِ الہٰی میں گزرتی تھیں، نیند آپ سے کوسوں دور رہتی تھی۔ 
آپ روزے نہایت کثرت سے رکھتے تھے بعض اوقات درختوں کے پتوں، جنگلی بوٹیوں سے روزہ افطار فرماتے۔ غرض قَائم اللیل اور صَائم النہار رہنا (یعنی رات کو بیدار رہنا اور دن کو روزے رکھنا) آپ کی عادت بن چکی تھی۔واقعی محبت الٰہی جس کی رَگ رَگ میں سما چکی ہو اور اس کے دل میں محبت کا سمندر جوش مار رہا ہو اسے بھلا نیند کیسے آ سکتی ہے۔ جب غافل دنیا  نیند کے مزے لے رہی ہوتی ہے اُس وقت خدا سے محبت رکھنے والے قیام، رکوع اور سجود کے ذریعے اپنے ربّ عزوجل کو راضی کرتے  اور اس کا قرب حاصل کرتے ہیں۔
سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نہ صرف ولایت میں غوث الاعظم تھے بلکہ آپ میدانِ علم میں بھی غوث الاعظم تھے۔ اپنے اپنے دور کے جلیل القدر ائمہ فن اور ماہرین علم آپ کے تلامذہ تھے جنھوں نے آپ سے علم الحدیث، علم التفسیر، علم العقیدہ، علم الفقہ، تصوف، معرفت، فتویٰ اور دیگر علوم پڑھے۔ سیدناغوث اعظم رضی اللہ عنہ ہر روز اپنے درس میں تیرہ علوم کا درس دیتے تھے اور 90 سال کی عمر تک یعنی زندگی کے آخری لمحہ تک طلبہ کو پڑھاتے رہے۔ بغداد میں موجود آپ کا دارالعلوم حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ علیہ کا قائم کردہ تھا، جو انھوں نے آپ کو منتقل کیا۔ آپ کے مدرسہ میں سے ہر سال 3000 طلبہ جید عالم اور محدث بن کر فارغ التحصیل ہوتے تھے۔اطراف ِ ارض سے مشکل سے مشکل مسائل آپ کے پاس آتے اور چند لمحوں میں ایسا مسکت جواب عطا فرماتے کہ سب کو علمی اطمینان حاصل ہوجاتا۔تذکرہ نگاروں نے لکھاکہ ایک دفعہ سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے قسم کھائی کہ وہ ایسی عبادت کرے گا جس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو ورنہ اُس کی زوجہ کو طلاق،علماء کرام حیران ہو گئے کہ ایسی عبادت کون سی ہو سکتی ہے جس میں دوسرا شریک نہ ہو آپ نے فوری جواب عنایت فرمایاکہ اس شخص کے لئے مطاف خالی کروایا جائے اور وہ اکیلا سات چکر مکمل کرے، تو یہ ایسی عبادت جو اُس وقت وہی ایک شخص کر رہے ہے ، علماء کرام آپ کا تحقیقی جواب سن کر عش عش کر اُٹھے۔
آپ شریعت کے معاملہ میں رعایت نہ برتتے،ایک بار کسی نے دعوی کیا کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کو سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے تو آپ نے اُس کی سخت زجروتوبیخ کی حتی کے اُس نے پختہ توبہ کی۔آپ کے مواعظ میں سب سے زیادہ تقوی ،قناعت،حیا،التزام ِ شرع،سخاء النفس،،بشاشت وجہ اور عجز و انکسار کے ساتھ ساتھ اخلاص و خدمت پہ زور دیا جاتا۔آپ فرماتے ہیں:’’اگر تمہارے دل میں کسی کا بغض ہے تو اُسے قرآن و سنت پہ پیش کرو اگر یہ عمل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے ہے تو مبارک اور اگر شہوتِ نفس سے ہے تو تم اپنے آپ پہ ظلم کر رہے ہو۔آپ فرمایا کرتے تھے: ’’ میں نے تما م اعمال پہ تحقیق کی ہے میں نے کھانا کھلانے اور حُسنِ اخلاق سے پیش آنے سے بڑی نیکی نہیں دیکھی۔‘‘
آپ کی مجالس علم وعرفان میں ہزارہاکبار محدثین اور جلیل القدر مفسرین ومتکلمین شریک ہوتے اور اکتساب ِ فیض کرتے تھے ،سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ ایک مجلس میں قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر فرمارہے تھے۔اوراس وقت اصول حدیث کے امام ،محدث ومفسر علامہ ابن جوزی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ اس آیت کی گیارہ تفاسیر تک تو امام ابن جوزی اثبات میں جواب دیتے رہے کہ مجھے یہ تفاسیر معلوم ہیں۔ اُس محفل میں سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی چالیس تفسیریں الگ الگ بیان کیں۔ امام ابن جوزی گیارہ تفاسیر کے بعد چالیس تفسیروں تک ’نہ‘ہی کہتے رہے یعنی پہلی گیارہ کے سوا باقی انتیس تفسیریں مجھے معلوم نہ تھیں۔ آپ  چالیس تفسیریں بیان کر چکے تو فرمایا:’’الآن نرجع من القال إلی الحال‘‘اب ہم قال کو چھوڑ کر حال کی تفسیروں کی طرف آتے ہیں۔جب حال کی پہلی تفسیر بیان کی  تو پورا مجمع تڑپ اٹھا، چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ امام ابن جوزی بھی تڑپ اٹھے۔ 
امام یافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’ سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا قبول عام اتنا وسیع تھا اور آپ کی کراماتِ ظاہرہ اتنی تھیں کہ اول سے آخر کسی ولی اللہ کی کرامات اس مقام تک نہیں پہنچیں۔شرق تا غرب پوری دنیا سے علماء، فقہاء، محدثین، صلحا اور اہل علم کی کثیر جماعت اطراف و اکناف سے چل کر آتی اورآپ کی مجلس میں زندگی بھر رہتے، علم حاصل کرتے۔ حدیث لیتے، سماع کرتے اور دور دراز تک علم کا فیض پہنچتا۔‘‘آپ کے پُر اثر وعظ و نصیحت کا ہی اثر تھا کہ اہل بغداد جو کچھ عرصہ پہلے لعو لعب و فتنہ انگیزیوں میں مبتلا تھے بدکاریوں اور بے ہود گیوں کے غلیظ کیچڑ میں دھنسے ہوئے تھے اس پیکر ِ رُشدو ہدایت کا دامن تھام کر باہر نکل آئے اور آپ کے وعظ و نصیحت سے اپنے ظاہر و باطن کا چمکا ڈالا ‘ سیدنا غوث  ِ اعظم رضی اللہ عنہ نے دستگیری کیا فرمائی کہ یہودی ہو یا نصرانی بد عقیدہ ہو یا بد مذہب گناہ گار ہو یا بد کار قاتل ہو یا لٹیرا ۔غرض ہر ایک آپ کے دامن ِ رحمت میں آکر تائب ہوجاتا آپ کے اس روحانی فیض سے ایک لاکھ فاسق و فاجر راہِ راست پر آئے  اور ہزاروں بد مذہبوں نے اسلام قبول کر لیا آپ کے مُریدین عالم ِ اسلام کے چپے چپے میں پھیل گئے اور یوں اسلام کی نورانی شعاعیں عراق، شام،عرب و ایران غرض تمام عالَم میں پھیل گئیں۔مسلسل نصف صدی تک طالبانِ فیض آپ سے روحانی فیض لیتے رہے اور یوں دینِ اسلام جو نحیف  و کمزور  ہو چکا تھا اور اس کی آب و تاب ماند پڑھنے لگی تھی آپ کے وعظ و نصیحت  اور فیض روحانی کے سبب پوری آب و تاب  کے ساتھ ایسا منور ہوا کہ تما م عالَم  ِ اسلام منور ہو گیا۔ آپ کا فیض اُسی طرح جاری ہے آج بھی بغداد شریف سے تشنگانِ علم و حکمت  سیراب ہو رہے ہیں ۔اللہ کریم آپ کے آستانہ پاک کو سلامت رکھے۔