• اولیائے کرام علیہم الرحمۃ

مجددِ اسلام شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ

سلسلہ عالیہ قادریہ کے پیشوا ، مجددِ اسلام ، عارفِ ربانی
حضرت شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ:احوال وتعلیمات
آپ کا مزارِ انور بغداد شریف میں سامرہ کے مقام پر مرجع خلائق ہے

مجددِ اسلام حضرت ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا شماران کبارصوفیائے کرام میں ہوتا ہے جو عشق الہٰی میں اس طرح زمزمہ پرواز ہوئے کہ امر ہوگئے اور اپنے عمل و کردار کے ذریعے تصوف و سلوک کی حقیقی و مثالی تصویر پیش کی۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ہر قو م کا ایک تاج ہو تا ہے اور ہم اہل تصوف کے تاج شبلی ہیں۔‘‘ آپ اکثریوں بھی فرمایا کرتے:’’لوگو! تم شبلی کو اس نظر سے نہ دیکھا کرو جس طرح دوسروں کو دیکھتے ہو کیونکہ وہ ’’عین من عیون اللہ‘‘ہیں۔آپ کا اسمِ مبارک’’دنف بن جحدر خراسانی ‘‘یا ’’جعفر بن یونس‘‘ کنیت ’’ابوبکر‘‘اور لقب’’ شبلی‘‘ تھا۔ ولادتِ باسعادت بغداد میں 247 ھ کو ہوئی اور سنِ بلوغ تک وہیں رہے۔ خراسان میں’’شبلہ‘‘ نامی ایک گاؤں جو وادی فرغانہ میں ہے، سے آپ کے خاندان کا تعلق تھا جس کی نسبت سے آپ ’’شبلی‘‘کہلائے۔ آپ کے والد خلیفہ ٔوقت کے ہاں عرض بیگی کا کام کرتے تھے۔
حضرت ابو بکر شبلی علیہ الرحمۃ نے اکتسابِ علم و حکمت اور معرفت و ہدایت کے لیے اپنے دور کے تمام علماء و اولیاء سے ملاقاتیں کیں۔ تیس سال تک علمائے ظواہر کی خدمت میں علوم متداولہ سیکھتے رہے اور علم فقہ و علم حدیث میں درجۂ کمال کی مہارت حاصل کی (آپ کو مؤطا امام مالک مکمل یاد تھی)۔  آپ فقہ میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد اور طریقت میں حضرت خیر نساج رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ اقدس پر بیعت تھے، لیکن باقاعدہ و باضابطہ طور پر روحانیت و ولایت میں عروج و کمال حضرت جنید بغدادی قدس سرہ العزیز کی تربیت و صحبت سے حاصل ہوا۔حضرت ابوبکر شبلی نہاوند کے امیر تھے۔ ایک دفعہ خلیفہ نے تمام عہدہ داروں کو خلعتوں سے نوازنے کا اہتمام کیا۔ ایک امیر کو چھینک آئی تو اس نے خلعت کی آستین سے ناک صاف کرلی، جس کی سزا  میں بادشاہ نے اس سے خلعت واپس لے کر عہدے سے بر طرف کردیا۔ آپکے دل میں فوراً یہ بات آئی کہ جو مخلوق کی عطاکردہ خلعت کا گستاخ ہو وہ ایسی سزا مستوجب ہے، تو اللہ رب العزت کی عطا کردہ خلعت کے بے ادب کی سزا پتا نہیں کیا ہوگی؟ لہٰذا آپ اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر حضرت خیر نسّاج رحمۃ اللہ علیہ کے دست بابرکت پر بیعت ہو گئے، کچھ عرصہ ان کی تربیت میں رہے اور پھر انہیں کے حکم پر حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوئے، عرض کی: مجھے لوگوں نے بتایا ہے کہ آپ کے پاس گوہرِ نایاب ہے، آپ اسے یا تو قیمتاً فروخت فرمادیں یا پھر بلا ثمن عنایت کر دیں۔ حضرت نے فرمایا:’’اگر میں اسے فروخت کرنا چاہوں تو تم خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور اگر اسے مفت دے دوں  تو تم اس کے قدر شناس نہ بن پاؤ گے اس لئے کہ بغیر محنت کے حاصل  ہونیوالی چیز  معمولی معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر تم وہ گوہر نایاب حاصل کرنا چاہتے تو بحرِ توحید میں غرق ہو کر فنا ہو جاؤ، پھر اللہ تعالی تم پر صبر و انتظار کے دروازے کھول دے گا اور جس وقت تمہارے اندر اس کے متحمل ہونے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی تو وہ گوہر از خود تمہاری دسترس میں آ جائے گا۔ ‘‘روحانی تربیت کے پیشِ نظر سیدنا جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر ایک سال تک عبادت و ریاضات اور مجاہدات میں مشغول رہے۔ پھر حکم ہوا  کہ ایک کہ سال تک گندھک بیچو، بعدازاں حکم ہوا کہ اب ایک سال تک بھیک مانگو، پھر حکم ہوا کہ نہاوند  میں جا کر ہر شخص سے معافی طلب کرو، آپ نے تعمیلِ حکم کرتے ہوئے ہرپیرو جواں سے معافی کی درخواست کی، وہاں ایک شخص جو موجود نہیں تھا،سے معافی نہ مانگ سکنے کی پاداش میں ایک  لاکھ درہم خیرات کیے۔ جس پر حکم ہوا ابھی بھی دل میں حبِ جاہ کی خلش باقی ہے ،لہٰذا مزید ایک سال تک بھیک مانگی جائے۔ جو بھیک ملتی فقراء میں تقسیم فرما دیتے اور خود بھوکے رہتے۔ پھر فرمایا کہ تمہیں اس شرط پر اپنی بارگاہ میں صحبت سے نوازا جائے گا کہ ایک سال تک تم فقراء کی خدمت گزاری اختیار کرو گے۔ سال مکمل ہونے کے بعد حضرت نے استفسار فرمایا: بتاؤ تمہارے نزدیک نفس کا کیا مقام ہے، عرض کی:’’میں خود کو تمام مخلوقات سے کم تر تصور کرتا ہوں‘‘، فرمایا: اب تمہارا ایمان تکمیل کو پہنچا ہے‘‘۔  حضرت ابو بکر شبلی ابتدائی دور میں شدید گریہ و رازی کیا کرتے،رات کے وقت تہہ خانے میں جا کر عبادت کرتے اگر ذرا غفلت کا شکار ہوتے تو لکڑی سے خود کو زد و کوب کرتے، اگر لکڑیاں نہ ہوتیں تو دیوار سے اپنا جسم ٹکراتے، دوران عبادت نیند کا غلبہ ہوتا تو آنکھوں میں نمک ڈالتے، لوگوں نے کہا: نمک سے پرہیز کریں کہ بینائی جا سکتی  ہے، فرمایا: ’’ میرا قلب جس شئے کا خواہشمند ہے وہ چشمِ ظاہر سے پوشیدہ ہے۔‘‘ فرمایا کرتے تھے کہ’’ میری پوری زندگی اسی آزرو میں گزر گئی کہ کاش مجھے خدا تعالیٰ سے ایسی خلوت نصیب ہوجاتی کہ میرا وجود باقی نہ رہتا۔‘‘ آپ ہمہ وقت اللہ کا نام لیتے اور اگر کسی اور کے منہ سے یہ نام سنتے تو اس کا منہ شکر سے بھر دیتے۔ ایک مجلس میں آپ نے بار بار اللہ اللہ کہا، تو درویش نے پوچھا: آپ لاالہ الااللہ کیوں نہیں کہتے؟ فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں لا (نفی) کہوں اور  جملہ مکمل کرنے سے قبل مجھے موت آجائے۔حضرت شیخ ابو بکر بن مجاہد علیہ الرحمۃ جو اپنے وقت کے عظیم محدث و فقیہ اور عارف باللہ تھے۔ ان کی مجلس میں علماء و فقہاء اور صوفیاء کا مجمع لگا رہتا۔ ایک دن حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ ان کی مجلس میں تشریف لے گئے تو وہ آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے اور سینے سے لگایا اور پیشانی مبارک کو بوسہ دیا، ایک ناواقف نے کہا حضرت یہ تو دیوانہ ہے، اور آپ اس قدر احترام فرما رہے ہیں؟ تو حضرت ابو بکر بن مجاہد نے ارشاد فرمایا: کہ اے لوگو! تمہیں کیا خبر؟ میں نے ان کے ساتھ ایسا ہی کیا جیسا کہ میں نے تاجدارِ کائنات ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے ساتھ اس طرح کرتے ہوئے دیکھا۔ پھر فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس مبارک قائم ہے پھر جس وقت حضرت شبلی اس مجلس میں تشریف لائے توامام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! شبلی پر اتنی شفقت و مہربانی کس وجہ سے ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ یہ ہر روز نماز کے بعد(لقد جاء کم الآیہ :یعنی سورۃ التوبہ کی آیت128سے آخر سورت تک)پڑھتا ہے اور اس کے بعد تین مرتبہ یہ درود شریف’’صَلَّی اللّٰہ عَلَیْکَ یَامحمد‘‘ پڑھتا ہے۔جب حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ہاں میں ہر نماز کے بعد یہ عمل کرتا ہوں ۔’’جلاء الافہام‘‘میں علامہ ابن قیم جوزی نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔
حضرت ابو بکر شبلی کے فرامین عینِ حقیقت پر مبنی ہیں اور ہر قول معرفت و حقیقت کا بحرِ نا پیدا کنار ہے۔ آپ تصوف کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’بارگاہِ خداواندی میں بے علم ہو کر رہنا تصوف ہے ۔‘‘ فرمایا:  ’’ صوفیاء وہی ہے جو اس طرح زندگی گزاریں کہ جیسے دنیا میں آنے سے قبل تھے۔‘‘ فرمایا:’’وہ سانس جو خدا کے لئے ہو وہ عابدین کی عبادت سے فزوں تر ہے۔‘‘ فرمایا:’’ نعمتوں کو نظر انداز کرکے منعم کا مشاہدہ کرنا شکر ہے۔‘‘آپ فرمایا کرتے‘’’عارف وہی ہے جو اللہ کے سوا کسی کا مشاہدہ کرے نہ کسی سے محبت و بات اور نہ ہی اپنی جان کا محافظ تصور کرے۔‘‘
آپ نے سترہ ذوالحجہ 334ھ کو وفات پائی بوقت ارتحال کہا گیا:لا الہ الااللہ پڑھنا شروع کریں فرمایا:’’جب غیر ہی نہیں ہے تو نفی کس کی کروں۔‘‘ عرض کی: شریعت کا حکم ہے، کہ ایسے وقت میں کلمہ پڑھنا چاہئے۔ فرمایا کہ سلطان فرما رہا ہے کہ میں رشوت قبول نہیں کروں گا۔ بعد ازاں کسی نے با آواز بلند کلمہ لاالہ الا اللہ کہنے کی تلقین کی تو فرمایا کہ میں اپنے محبوب سے مل گیا۔ یہ فرما کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آپ کا مزار مبارک سامرا، عراق میں مرجعِ خلائق ہے۔
٭…٭…٭