• اخلاق وآداب

اطاعت وعبادت میں استقامت

اطاعت وعبادات میں استقامت

استقامت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ وحدہ لاشریک کی اطاعت پر ڈٹ جائے، فرائض و واجبات کی ادائیگی اپنے وقت پر کرے، اوامر پر عمل کرے اور نواہی سے رُک جائے۔ یعنی استقامت دین کو مضبوطی سے پکڑ لینے، اُس پر عمل کرنے اور اُس کی دعوت کو عام کرنے کا نام ہے۔ مندرجہ ذیل چند چیزوں کا نام استقامت ہے(1)اللہ رب العزت پر سچا ایمان لانا، (2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اتباع اور مکمل اقتداء کرنا(3)واجبات کو ادا کرنا یعنی جو اللہ رب العزت کی طرف سے واجب اُمور ہیں۔(4)محرمات و مکروہات سے رُک جانا(5)نوافل کی کثرت کرنا(6)نیکی کے کاموں پر عمل کرنا،(7(درمیانہ روی اور اعتدال رکھنا(8)اعضائے کی حفاظت اور زبان کو لگام دے کر رکھنا(9(تزکیہِ نفس کے لئے کوشاں رہنا(10)اللہ کی اطاعت اور اُس کے حبیب ِ اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں سرگرداں رہنا۔
قرآن وسنت میں متعدد مقامات پر اللہ رب العزت اور اُس کے رسول معظم ﷺ نے اطاعت و عبادات پر استقامت کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے نیز ہمیں اِس پراُبھاراگیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ بے شک جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اِس پر استقامت اختیار کی (ڈٹ گئے) تو اُن پر اللہ کی رحمت کے فرشتے اُترتے ہیں، نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو اُس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا‘‘۔(فصلت: 30) سورۃالاحقاف میں ارشاد فرمایا:’’بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اِس پر ڈٹ گئے(یعنی استقامت اختیار کر لی) تو اُنہیں نہ خوف ہے اور نہ ہی و ہ غمگین ہوں گییہی جنتی لوگ ہیں اور جنت میں ہمیشہ رہیں گے اُنہیں اُنکے اعمال کی جزاء دی جائے گی‘‘(الاحقاف13،14)
اور ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہوا:’’فَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ‘‘ یا رسول اللہ ﷺ ! جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا آپ اُس پر قائم رہیں۔ یہ خاص رسول اللہ خاتم النبیین ﷺ اور پھر آپ کے توسل سے اُمتِ محمدیہ کو بھی حکم ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ’’رسو ل اللہ ﷺ پر اِس آیتِ کریمہ سے بڑھ کر اور کوئی مشقت والی آیت نازل نہیں ہوئی‘‘(تفسیرکبیر)
ایک مرتبہ ایک صحابی حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ خاتم النبیین ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی:’’یارسول اللہ! مجھے اسلام کی کوئی ایسی بات بتائیں کہ میں اُس کے بارے میں آپ کے علاوہ کسی اور سے سوال نہ کروں‘‘ تو رسول اللہ خاتم النبین ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’قل آمنتُ باللہ ثم استقم‘‘تم کہو کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پراِس پر قائم رہو۔(مُسندِ احمد)
عبادات و اطاعت میں استقامت اختیار کرنے سے انسان کے اندر عاجزی، انکسار، تواضع، خشوع وخضوع، خشیتِ ایزدی اور مخلوقِ خدا سے ہمدردری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اِسی لئے تو اولیائے کرام فرماتے ہیں:’’الاستقامۃ فوق الکرامۃ‘‘ یعنی استقامت کرامت سے بھی اوپر ہے۔ اِسکی عملی مثال یہ ہے کہ ایک بار تاجدارِ گولڑہ سید مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور آپ کے خدمت میں کچھ دن گزارنے کے بعد جانے لگا تو آپ نے فرمایا:’’کیسے آئے تھے آپ؟ تو اُس شخص نے جواباکہا:’’حضرت میں نے سُنا کہ آپ ایک بہت بڑے پیر ہیں اور آپ کی بڑی بڑی کرامات ہیں، مگر میں نے تو اِن ایام میں آپ کی کوئی کرامت نہیں دیکھی‘‘، تو آپ مسکرا کر فرمانے لگے:’’کیا تو نے کبھی مجھ میں شریعت کی خلاف ورزی دیکھی؟ تو اُس نے کہا:’’نہیں‘‘، تو آپ نے فرمایا:’’یہی تو ایک پیر کی کرامت ہے (مہرمنیر)
اطاعتِ الہٰی پر ڈٹ جانا دین و دُنیا میں کامرانی کا ذریعہ اور دونوں جہاں میں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ اِس کے ذریعہ سے اللہ رب العزت نے بنی آدم کو عزت کا جامہ پہنایا ہے۔نیزعقیدہِ توحید اور تقویٰ کو اپنانے سے دُنیا و آخرت میں فلاح و فوز ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم (یعنی شرک) سے آلودہ نہیں کیا تو یہی لوگ ہیں جن کے لئے امن ہے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔(الانعام: 82) یعنی ایمان کے ساتھ اُس ایمان کو ظلم سے بچانا ضروری ہے۔ 
حالاتِ حاضرہ کا بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو بظاہر ایمان والا کہنے والا اپنے ایمان کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے۔ مومن ومسلمان کہلانے والا، چوری، غیبت، ملاوٹ، دغا بازی، جوا، شراب، زنا اور دیگر کئی ایک مہلک امراض کا شکار ہے۔ اطاعتِ خدا و رسول سے ہی دُنیا میں عزت، کامرانی، فلاح وفوز اور نجات ہے جبکہ ذلت، رُسوائی، شرمندگی اور نقصان اِ س سے رُوگرانی سے ہے چنانچہ ارشادِ ربِ ذوالجلال ہے:’’اور جو بھی اللہ اور رسول اللہ خاتم النبیینﷺ کی نافرمانی کرے گا اور حدود اللہ سے تجاوز کرے گا تو اللہ اسے ہمیشہ کے لئے جہنم رسید فرمائے گا اور اس کے لئے رسوا کن عذاب ہے‘‘۔(النساء: 14)
امام الانبیاء ﷺ اپنے اصحاب کو ہمیشہ استقامت پر رہنے کی تلقین فرماتے۔ جن لوگوں نے استقامت اختیار کی وہ دُنیا و آخرت میں کامیاب رہے۔ ہمارے سامنے تاریخ کے خون آلود صفحات موجود ہیں کہ جن اقوام نے دینِ متین کو چھوڑا اور خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور ہوئے وہ دُنیا وآخرت میں ذلیل ورسوا ہوگئے۔ مغلیہ خاندان کے اختتام پذیر ہونے کی وجہ اُن کا دین سے دوری اور شراب و شباب کے نشے میں دھت ہوجانا تھا۔جیسا کہ شروع میں استقامت کی وجوہ بیان کیں کہ اُن پر عمل پیرا ہونے والا شخص ہی فوز وفلاح پا سکتا ہے۔ عمل کی قبولیت کی علامت استقامت ہے جو شخص مستقل مزاجی سے کوئی نیک عمل کرتا ہے اِسکا مطلب یہ ہے کہ اُس کا عمل بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہوتا جا رہا ہے۔حضور خاتم النبیین ﷺ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ کو محبوب عمل وہ ہے جس میں مداومت (یعنی پابندی اور مستقل مزاجی) ہوخواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔(صحیح بخاری)حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم خاتم النبیین ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا: ’’اے عبداللہ! فلاں شخص کی طرح مت بنوجو راتوں کو قیام کرتا تھا لیکن اب چھوڑدیا۔‘‘(صحیح بخاری )۔
اللہ رب العزت ہمیں عبادات و اطاعت میں استقامت نصیب فرمائے۔ آمین