تربیت ِ اولاد میں باپ کا کردار اوراس کے اثرات
اولاد اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت،مستقبل کی معمار،معاشرہ کی پہچان اور خاندان کی بقا کا ذریعہ ہے۔ اسی بناپر اسلامی تعلیمات میں اولاد کی پیدائش سے قبل والدین کی ذمہ داریاں متعین کردی گئیں اور کسی بھی مقام پر باپ کی ذمہ داریوں اور اس کے فرائض منصبی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اولاد کی صحیح تربیت میں والدین کا یکساں کردار ہے۔ لیکن ان دونوں میں باپ کی موجودگی، اس کی تربیت، ماں کی واجب الادا ذمہ داریوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اسلام نے خاندان کا جو تصور دیا ہے جس کا سربراہ باپ ہے جب کہ اس کی ایک اہم اکائی اولاد کی صورت میں بچے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بچوں کی تربیت میں کسی طرح کی کوئی کوتاہی نہ کی جائے چونکہ سب سے پہلی اور سب سے بہتر درس گاہ خود اس کا گھر ہے اسلام اپنے زیر اثر معاشرے میں اولادکی تربیت و تحفظ کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ذیل میں بچوں کے حوالے سے والد کی ذمہ داریوں، اس کی تربیت اور اس کے اثرات بیان کئے جارہے ہیں۔
باپ کی اہمیت وفضیلت: باپ،ایثار، صبر وشکر، لطف وکرم، استقامت و ہمت کا پیکر ہے جو اولاد کے کے لئے اللہ تعالیٰ کی ایک بہت عظیم نعمت ہے۔ اولاد کے لئے باپ کی رحمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ باپ کو جنت کا وسطی دروازہ قرار دیا گیا۔ جیسا کہ مسند احمد بن حنبل میں ایک حدیث میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ باپ جنت کا وسطی دروازہ ہے اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ اسے ضائع کردو یا اپنے لئے محفوظ کرلو‘‘گویا کہ باپ کی رضا میں جنت کا حصول اور باپ کی ناراضگی جنت کے دروازے کو اپنے اوپر بند کرنا ہے۔اسی طرح اور ایک اور حدیث میں آیا کہ تین دعائیں جن کو اللہ رد نہیں فرماتا ان میں سے ایک باپ کی اپنی اولاد کے لئے دعا ہے۔سنن ابن ماجہ میں موجود حدیث کا خلاصہ یوں ہے:’’تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں، مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور باپ کی اپنی اولاد کے لئے دعا‘‘۔
اسلام کے متعین کردہ عمومی حقوق:قرآنی تصور کے مطابق اللہ کریم نے اپنی فطرت سے انسانی فطرت کا خمیر تیار کیا ہے۔ اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’ہر بچہ اپنی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے بعد میں اس کے والدین اسے نصرانی یا یہودی بنادیتے ہیں ‘‘ گویا ہر پیدا ہونے والا بچہ پیدائشی مسلمان ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر کرتے ہیں۔ اور وہ جس رنگ میں چاہیں اسے ڈھال دیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’اپنی اولاد کو عزت دو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔‘‘ جامع ترمذی میں حدیث کا مفہوم یوں ہے کہ سرورِ کائنات، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: ’’کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا۔‘‘باپ کے لئے سب سے اعلیٰ اور بیش بہا تحفہ یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اسلام کے اصولوں پر کرے تاکہ اعلیٰ اخلاق اور سیرت و کردار کے اعتبار سے دوسروں کے لیے مثال اور نمونہ بن جائے۔عالم انسانیت کے لیے محبت و اخوت، رحمت، ایثار و قربانی، دکھی انسانیت کی داد رسی کا نمونہ بنے۔قرآنِ حکیم میں ارشاد ِربانی کا مفہوم ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘ یعنی اس آیہ مبارکہ میں اہل ایمان کو متنبہ کر تے ہوئے ایک اہم ذمے داری کا احساس دلایا گیا ہے کہ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی اصلاح اور ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کریں تاکہ یہ سب جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں۔
پیدائش سے قبل حقوق کا تعین:اسلام دین ِفطرت ہے اور اسلام پیدائش سے پہلے ہی آنے والے فرد کی حفاظت، خیر، بھلائی اور بہتری کے لئے ہدایات دیتا ہے۔ جیسا کہ بچے کا وجود رحمِ مادر میں آنے سے پہلے ہی اس کی شخصیت کو ایک صالح انسان بننے کا سبب پید ا فرما دیا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے تو پہلے بسم اللہ پڑھ کر دعا شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے۔ ‘‘
اسلام نے دوران حمل بچے کو ضائع کروانا یا اسقاط حمل کی کوئی صورت اختیار کروانا تاکہ بچہ یا بچی ضائع ہوجائے کبیرہ گناہوں شمار کیا ہے اور اس کی سخت ترین وعید سنائی گئی۔اسلام نے دوران حمل اس طرح دوران حمل ترکہ چھوڑنے والے مرحوم کی جائیداد میں اس کو اس کا حق دیا جائے گا۔ اس طرح جنین کے نفقہ کی ذمہ داری باپ پر ڈالی گئی کہ اس کو پورا کیا جائے۔قرآن مجید سورۃ الطلاق کی آیت نمبر 6 میں آیا:’’ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو بچہ پیدا ہونے تک ان پر خرچ کرتے رہو۔‘‘ اس سے واضح ہوا کہ دوران ِحمل حُسنِ سلوک کے معاملہ کا حکم دیا گیا۔بیوی اور بچے کے تحفظ کے لئے ان کا باقاعدہ علاح معالجہ اور چیک اپ کرانا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ کیوں کہ پیدا ہونے والے بچے کی ذمہ داری ماں کے ساتھ ساتھ شوہر یعنی باپ پربھی برابر عائد کردی گئی جیساکہ کہ پہلے سورۃ الطلاق کی آیت نمبر 6 بیان کی جاچکی ہے جس میں ان پر برابر خرچ کرتے رہنے کا حکم دیا گیا جب تک بچہ کی پیدائش نہ ہو جائے۔ دوران ِحمل رزق حلال کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔
اسی طرح دوران ِحمل نیک صالح اولاد کے لئے اللہ کریم سے دعائیں مانگنے کابھی حکم دیا گیا۔ قرآن کریم کی سورۃ آل عمران آیت نمبر 38 میں وارد ہوا کہ ’’اے میرے پروردگار مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہے‘‘۔ اسی طرح دوران حمل گھر کا ماحول خوشگوار رکھنا چاہئے اور دعاوں، نمازوں اور محافل اور دیگر وظائف کا نہ صرف اہتمام کیا جانا چاہئے بلکہ معمول بنا لینا چاہئے۔
اولاد کی کفالت: اولاد کی کفالت کی ذمہ داری اسلام نے باپ پر ڈالی ہے۔ سورۃ الطلاق کی آیت نمبر 7 میں اس حوالے سے واضح حکم موجود ہے۔ احادیث میں یہ اصول بھی سمجھایا گیا کہ والد کے لئے سب سے پہلے اس کے خرچ کرنے کی جگہ اس کی اولاد ہے، اولاد کی کفالت، ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد وہ صدقہ خیرات کرے۔اولاد کی ضروریات زندگی پورا کرنا محض دنیاداری نہیں بلکہ عین تقاضائے دین ہے۔ اور شریعت اسلامی کے عین مطابق ہے۔ احادیث مبارکہ میں سب سے پہلے اولاد پر خرچ کرنے کی تلقین کی گئی۔ جامع ترمذی کی حدیث میں سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشاد فرمایا:’’ بہترین دینار وہ ہے جسے آدمی اپنے اہل وعیال پرخرچ کرے۔‘‘اسی حدیث کے دوسرے جزو میں فرمایا گیا :’’ اس شخص سے زیادہ اجر والا کون ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتاہے‘‘۔ جبکہ جامع ترمذی کی ایک اور حدیث میں آیا کہ آدمی کا اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔اسی طرح ایک حدیث میں آیا کہ اولاد کو رزق حلال کھلانے والے والد کا چہرہ روز ِقیامت چودھویں کے چاند کی مانند چمکتا ہوگا''۔
اسلام نے کھانے پینے خوراک اور عام ضروریات زندگی کے معاملے میں لڑکوں اور لڑکیوں سے یکساں برتاؤ کی ہدایت کی ہے۔عرب معاشر ے میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کا وحشیانہ طریقہ رائج تھا۔ قرآن مجید کی سورۃ التکویر کی آیت میں اسی بے رحمانہ روایت کا ذکر کیا گیا : ’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی‘‘۔ اس آیت کے انداز بیان میں ایسی شدید غضب ناکی پائی جاتی ہے جبکہ لڑکیوں کی تربیت کے حوالے سے متعدد احادیث کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت وا لے دن ایسے والدین یا بھائیوں کو جو اپنی دو تین یا زیادہ یا ایک بیٹی یا بہن کی اچھے سے تربیت کر کے نکاح کردیتے ہیں ان کو اپنے ساتھ جنت کی ہمسائیگی اور معیت کی عظیم خوشخبری سنائی۔اسی طرح مسند احمد بن حنبل میں ایک حدیث میں آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ جس شخص کی بیٹیاں ہوں، سو وہ نہ تو انہیں زندہ درگور کرے نہ ہی بیٹوں کو ان پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا‘‘
بہترین باپ کے خصائص: ان تعلیمات کی روشنی میں ہم بہترین باپ کے چند خصائص یہاں درج کرتے ہیں۔ بچے اپنے والد کا مقابلہ کسی اور سے نہ کرسکیں۔گھر میں عدل وانصاف روا رکھا جائے۔بچوں کویکساں پیار کرنا، بوسہ دینا، توجہ دینا، کندھوں پر بٹھانا، ان کے ساتھ کھیلنا جہاں نہ صرف بچوں میں ذہنی تروتازگی کا باعث ہے بلکہ والد کی قربت اور محبت کا بھی ذریعہ ہے۔گھریلو اور میاں بیوی کے اختلافات سے پرہیز بہتر ہے مگر بچوں کے سامنے کسی صورت گھریلو اخلافات اور لڑائی جھگڑے نہیں ہونے چاہیئں۔بچوں کے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ باپ کا رویہ بہترین ہونا ضروری ہے تاکہ اسے بھی رشتوں کی پہچان ہو اور بچہ ان مودت اور انسیت کا درس حاصل کرے۔والد کا کردار رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ ہونا۔ بچوں کو والدین سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں ہونا چاہئے۔باپ کو سب بچوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر پیار، محبت اور شفقت کا رویہ اپنا چاہئے۔باپ کو بچوں کے ساتھ مناسب وقت اکھٹے گزارنا چاہئے تا کہ بچے بہتر مانوس ہوسکیں۔باپ کو اپنے بچوں کی پسند نا پسند کا علم ہونا چاہئے۔ اسی طرح بہترین باپ بچوں کے لئے نرم دل، خیال رکھنے والا اور ایماندار بن کر دکھاتے ہیں ۔ بچوں کے ساتھ کھانا کھانا۔ بچوں سے ان کی روز کی مصروفیات پوچھنا۔ ان کے دوستوں سے ملنا، دوست بنانے میں مدد دینا ان کی پسندیدہ نظمیں سننا اور ان کی نصابی وہم نصابی سرگرمیں میں ان کے ساتھ ہونا ہے۔
تربیت کے اثرات وثمرات:ماہرین ِنفسیات کی رائے کے مطابق بچوں کی صحت مند نشوونما اور کامیاب مسقبل میں والد کا کردار کلیدی ہوتا ہے، جن گھروں میں باپ مثبت اور متحرک انداز میں بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں وہاں بچوں کے اندر کئی خصوصیات خود بہ خود پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں جیسا کہ بچے پر اعتماد ہوتے ہیں۔ پڑھنے لکھنے سمیت سماجی صلاحیتوں میں بہتر ہوتے۔ خود پر قابو پانے کے قابل بن جانتے ہیں، اپنے رویوں سے مسائل پیدا نہیں کرتے۔دوسروں کے معاملات اور مشکلات کے حوالے سے زیادہ حساس یا خیال رکھتے ہیں۔ جنسی بے راہ روی میں پڑنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ کیوں کہ والد کا اصل کام صرف بچوں کی مادی ضروریات یا پیسوں سے متعلق اشیا کی فراہمی ہے نہیں بلکہ ان کا مکمل رہنما، مددگار، معاون اور بہترین دوست کی ہے۔ معاشرے میں والد کو سخت گیری کی علامت سمجھا جاتا ہے، یہ بات بری سمجھی جاتی ہے کہ باپ اپنے بچوں سے بہت زیادہ محبت کا اظہار کرے یا گھل مل کر رہے جس سے وہ بچوں سے دور ہوجاتا ہے۔ حالانکہ یہ رویہ اور سوچ درست نہیں۔ اسی طرح ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ بچّوں کو ذہنی وجسمانی طور پر کمزور کرتا ہے اور ذہن باغی کردیتا ہے۔بچے والدین کا عکس ہوتے ہیں، بے وقت رعب ودبدبہ بچوں کی اسی طرح بنا دیتا ہے۔جن بچوں کے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے وہ منفی احساسات کا شکار ہوکررہ جاتے ہیں۔ اسی طرح مختلف جدید تحقیقاتی رپورٹس میں یہ بات بھی بیان کی گئی کہ جو بچیاں والد کے زیادہ قریب ہوتی ہیں وہ مضبوط اعصاب کی حامل ہوتی ہیں اور شدید مصائب میں بھی وہ ثابت قدم رہتی ہیں۔اور روزمرہ زندگی کے مسائل جھیلنے اور تناؤ سے باہر نکلنے میں زیادہ کامیاب رہتی ہیں۔ اسی طرح والد کی شفقت بچیوں میں غربت کا احساس بھی کم کرتی ہے۔ بچیاں اپنے باپ کو پرورش، نگہداشت، تحفظ، محبت اور باہمی احترام کا اہم مرکز سمجھتی ہیں اسی لیے والد بچیوں کو نئی دنیا سے آگاہ کرنے اور ان کو سمجھ فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
(مصادرومآخذ:صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مسند امام احمد، اسلام کا نظامِ خاندان، تعلیم وتربیت، سلسلہ ء تعلیمات، مسلم خاندانی نظام)