راہِ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت واہمیت
مفتی محمد لقمان رضا
ہر سچااور نیک مسلمان اپنی حیات مستعار میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا طلب گار ہوتا ہے ، وہ اِسے اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیتا ہے اور اس کے حصول کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام اسے جہاں دیگر بے شمار ہدایات سے نوازتا ہے وہاں وہ اسے ’’انفاق فی سبیل اللہ ‘‘کا راستہ بھی دکھاتا ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال میں سے کچھ حصہ فقراء، مساکین، ناداروں، محتاجوں، معذوروں ، ضرورت مندوں اور معاشی بد حالی کے شکار افراد پر خرچ کرے ۔انفاق سے اللہ کی محبت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی خوشی ، سعادت مندی، طہارت ِنفس اور اللہ کی عبادت جیسی عظیم نعمتیں بھی حاصل ہوتی ہیں۔ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر بندوں کواللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ چند مقامات ملاحظہ ہوں ۔ارشاد خداوندی ہے: اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرو(البقرۃ: ۲۶۷)۔ایک اور مقام پرانفاق فی سبیل اللہ کا اجرو ثواب واضح کرتے ہوئے ارشاد گرامی ہے: جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے جس سے سات بالیاں نکلیں ، ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتاہے اس سے بھی زیادہ عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا ، خوب جاننے والا ہے (البقرۃ: ۲۶۱)۔ ایک اور جگہ ایمان اور انفاق فی سبیل اللہ کو اصل نیکی قرار دیتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: نیکی تو اس شخص کی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ ، روز آخرت ، فرشتوں ، کتابوں اور انبیاء پر سچے دل سے ایمان رکھے اور اپنا مال اللہ کی محبت میں عزیز و اقارب ، یتیموں، محتاجوں، مسافروں ، سائلوں اور غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کرے (البقرۃ: ۱۷۷)۔ ایک اور مقام پر سونا چاندی جوڑ جوڑ کے رکھنے والوں ، معاشرے کی ساری دولت سمیٹ کراپنی تجوریاں بھرنے والوں اور اس میں سے ایک پیسہ بھی راہ ِخدا میں خرچ نہ کرنے والوں کا عبرت ناک انجام بتاتے ہوئے ارشاد خداوندی ہے: اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیں، جس دن اس مال کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں ، ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی (اورکہا جائے گاکہ )یہ وہی مال ہے جسے تم نے اپنے لیے جوڑ جوڑ کے رکھا تھا ، اب اس کا مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے تھے۔
جود و کرم اور انفاق فی سبیل اللہ رسول اللہ ﷺ کی اعلیٰ ترین صفات میں سے بھی ہے۔قرآن حکیم کی طرح آپ ﷺ نے احادیث مبارکہ میں لوگوں کواللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کی بھرپور انداز سے ترغیب فرمائی ہے۔آپ ﷺ کا فرمان ہے: حسد(رشک) صرف دو بندوں پر جائز ہے ۔ایک وہ جسے اللہ نے مال عطا کیا ،پھر اسے اس مال کواپنے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق بھی بخشی، دوسرا وہ آدمی جسے حکمت عطا کی گئی ،جس کے ساتھ وہ فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے (متفق علیہ)۔ ایک اور مقام پر آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: روزانہ دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ، ان میں ایک کہتا ہے کہ اے اللہ! انفاق کرنے والے کو نعم البدل عطا فرما ۔ اور دوسرا فرشتہ کہتا ہے کہ اے اللہ! بخیل کے مال کو ہلاک فرما(متفق علیہ)۔
انفاق کی اقسام :
:انفاق کی دو قسمیں ہیں
انفاق واجبہ۔انفاق نافلہ۔ انفاق واجبہ میں زکوٰۃ، عشر ، صدقہ فطر، کفارے سمیت وہ تمام صدقات شامل ہیں جن کا ادا کرنا فرض یاواجب ہوتا ہے۔ واجب صدقات کے علاوہ انفاق کی تمام صورتیں انفاق نافلہ میں شمار ہوتی ہیں۔بسا اوقات معاشرے میں معاشی بدحالی نے لوگوں کواپنے شکنجے میں اس حد تک جکڑرکھاہوتا ہے کہ زکوٰۃ و دیگر صدقات واجبہ ادا کرنے کے باوجودبھی اس سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ایسی صورت میں صاحب ثروت لوگوں کو نفلی صدقات کی طرف بھی راغب کیا گیا ہے اور اس پر انہیں عظیم اجر و ثواب اور بخشش و مغفرت کی نوید سنائی گئی ہے۔
انفاق کے آداب:
انفاق حلال اور پسندیدہ مال میں سے ہو۔اللہ کی رضا پیش نظر ہو اور اجر کی امیدصرف اُسی سے رکھی جائے۔ اس بات کا یقین رکھا جائے کہ جتنا میں اللہ کے راستے میں خرچ کر رہا ہوں وہ مجھے اس سے بہت زیادہ عطا فرمائے گا۔خوش دلی سے کیا جائے۔ فرحت و مسرت کا اظہار کیا جائے۔ انفاق کے وقت قلب نہ تو مضطرب ہو اور نہ یہ خوف ہو کہ مال کم ہو جائے گا۔ بعد میں نہ کبھی احسان جتلایا جائے ، نہ یاد دلایا جائے اور نہ اس کا بدلہ طلب کیا جائے۔دے کے کبھی واپس نہ لیا جائے۔ حسب موقع ومصلحت کبھی سب کے سامنے ہو اور کبھی سب سے چھپ کر۔ہر حال میں ہو خواہ فراخی ہو یا تنگ دستی، امیری ہو یا غریبی ، صحت ہو یا بیماری،آسانی ہو یا مشکل۔ انفرادی سطح پر بھی ہو اور اجتماعی طور پر بھی۔
انفاق کے مصارف:
انفاق سے مساجداور دینی مدارس تعمیر کیے جائیں ۔مبلغین، مدرسین اور ائمہ و خطباء کے لیے معقول تنخواہوں کا انتظام کیا جائے۔ یتیموں، بیوائوں، غریبوں، کمزوروں، محتاجوں، ناداروں کی کفالت کی جائے۔ پانی کی سبیلیں، مسافر خانے اور لنگر خانے تعمیر کیے جائیں ۔ زمینیں خرید کر انہیں مسلمانوں کے نفع کے لیے وقف کیا جائے، اسی طرح پلازے ، مارکیٹیں اور دکانیں بنا کر ان کی آمدنی راہ خدا میں وقف کر دی جائے۔ مشہور و معروف مستند علماء کرام کی اسلامی کتب مختلف زبانوں میں ترجمہ کرا کے چھپوائی جائیں اور تقسیم کی جائیں۔ مسلمان فقراء اور مساکین کے مفت علاج اور دیگر طبی ضروریات کی تکمیل کے لیے مراکز صحت اور ہسپتال تعمیر کیے جائیں۔