تجارت کی برکت واہمیت
اسلام میں اُخروی کامیابی کے لیے جہاں اپنے خالق ومعبود کی عبادت وپرستش کا شعور بخشا ہے وہیں دنیاوی ترقی وخوش حالی کی خاطر کسب ِ معاش کا بھی احساس عطا کیا ہے جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’ پھر جب نماز ادا کرچکو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو‘‘( سورۃ الجمعہ:10)
سورۂ جمعہ کی آیت ِ مقدسہ میں بندگی کے بعد حصول معاش کی طرف رغبت دِلائی گئی ہے اور یہ آیت ِ شریفہ صنعت وحرفت ، زراعت وتجارت وغیرہ طلب ِ رزق کے جملہ وسائل وذرائع کو شامل ہے لیکن کسب ِ حلال میں خیر کثیر کے اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت وفضیلت تجارت کو حاصل ہے جیسا کہ نبی کریم خاتم النبیین ﷺ کا فرمان عالی شان ہے :’’ برکت کے حصوں میں سے نوحصے تجارت میں ہیں ‘‘ ۔(کیمیائے سعادت)
نیز فرمایا :’’ امانت دار اور راست باز تاجر انبیاء وصدیق اور شہداء اور صالحین کی صف میں ہوگا۔ ‘‘( صحیح بخاری ، صحیح مسلم )
ذکر کردہ دونوں احادیث کے ذریعے معلوم ہو اکہ تجارت ، دولت کی فراوانی اور رحمتوں اور برکتوں کی فراہمی کا راز اور مقربین ومحبوبین بارگاہِ الہٰی کی قربت ومعیت کا سبب ہے جو خوشنودیِ باری تعالیٰ کی عظیم دلیل اور نجات ومغفرت کی کامل ضمانت ہے ۔
اگر ہم اسلامی تاریخ پر ایک طائرانہ تو یہ حقیقت خوب آشکار ہوجائے گی کہ وجودِ انسانی کی اصل سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر جان ِ کائنات حضور نبی کریم خاتم النبیین ﷺ تک تمام رسل عظام اور انبیائے کرام علیہم السلام اپنی محنت ومشقت اور کدوکاوش ہی کی بدولت روزی حاصل کرتے تھے مثلاً سیدنا آدم علیہ السلام زراعت وکاشت کاری کیا کرتے تھے ، سیدنا ادریس علیہ السلام کپڑے سلا کرتے ، سیدنا موسیٰ علیہ السلام بکریاں چرایا کرتے ، سیدنا داؤد علیہ السلام زرہ بناکر بیجتے تھے اور تاجدارِ عرب وعجم فخر آدم وبنی آدم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تجارت کی غرض سے یمن وشام کا سفر اختیار کیا۔
اِسی طرح اگر اصحاب رسول رضی اللہ عنہم اجمعین کی حیات ِ طیبہ کا جائزہ لیا جاتے تو معلوم ہوگا کہ بڑے بڑے جلی القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تجارت کیا کرتے تھے مثلاً خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ اپنے وقت کے بہت بڑے اور نہایت مشہور تاجر تھے ، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کپڑا اور دودھ فروخت کیا کرتے تھے ۔ سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ بھی کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے ۔
پوری تاریخ اسلام ایسے معزز افراد کی سیرت ِ مقدسہ سے لبریزاور اُن کے تجارتی نقوش سے جگمگا رہی ہے لیکن صد حیف کہ آج مسلم طبقہ تجارت کو نہ صرف بنظر حقارت دیکھ رہا ہے بلکہ اس سے کوسوں دور ہوچکا ہے پھر تجارت ہی کی کیا تخصیص؟ ہر اُس کام سے دامن چراتا ہے جس میں محنت ومشقت اورجدوجہد کی ضرورت پڑتی ہے ۔ محض آرام طلبی اورعیش پسندی اُس کا مطمح نظر اور طرۂ امتیاز بن چکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارامثالی عروج رو بہ زوال اورہمارا خوش حال وترقی یافتہ مسلم معاشرہ معاشرتی بدحالی اور اقتصادی زبوں حالی کی بندشوں میں گرفتار ہے اور مسلمانوں کو محنت کی زحمت گوارا نہ ہونے ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنی غربت وافلاس کی شکایتوں میں اُلجھ کر رہ جاتے ہیں ،اِن مسلمان بھائیوں سے ہی عرض ہے کہ
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے شکوۂ قسمت کیسا؟
ضربِ مرداں سے اُگل دیتا ہے پتھر پانی
محنت سے نفرت وعداوت اور سستی وکاہلی سے محبت رکھنے والے بعض مسلمان غیروں کی ترقیوں اور کامیابیوں کو دیکھ کر حسرت ویاس کے شکار ہوجاتے ہیں اے کاش! انھیں یہ درس یاد ہوتا کہ ’’ من جد وجد‘‘ ( جس نے کوشش کی اُس نے پایا) اور یہ پیغام انھوں نے فراموش نہ کیا ہوتا کہ
اپنے ہاتھوں سے بنا تو بھی کوئی قصر عظیم
چشم حسرت سے کسی محل کی تعمیر نہ دیکھ
آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو میدانِ عمل وتجارت میں اُتاردیں اور محنت ومشقت کو اپنی عادت بنالیں اور جو مسلمان مالی اعتبار سے کمزور ومجبور ہوں اُن کی مدد واعانت کریں اور ان کے ساتھ ہمدردی وخیرخواہی کا برتاؤ رکھیں اور معاشی اعتبار سے مستحکم ومضبوط بنانے میں کوشاں رہیں تاکہ خود رحمت ونصرتِ خداوندی کے حق دار بنیں کیوں نبی رحمت خاتم النبیین ﷺ کا فرمان ِ عالی شان ہے :’’ اللہ تعالیٰ بندے کی مددمیں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مددمیں ہوتا ہے ‘‘ (صحیح بخاری )
اگر ایسا ہوا تو ہمارا کھویا ہوا تشخص دوبارہ پھر قائم ہوسکتا ہے اورہمارا رُکا ہوا کارواں ایک بار پھر بدستور اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوسکتا ہے ۔لیکن یاد رکھیں ! حصول رزق اور کسب ِ معاش وطلب ِمال کی وہ راہیں اختیار نہ کی جائیں جو موجب ِ لعنت اور سبب ِ ملامت ہوں مثلاً کذب بیانی کہ آج عموماً تاجر اپنی تجارت کو فروغ دینے کی خاطر کذب بیانی کا سہارا لیتے ہیں اور فروخت کی جانے والی چیز کی جھوٹی جھوٹی تعریفیں کرکے اورا س کی بے جا اہمیت وافادیت ذکر کرکے زیادہ قیمت کے حصول کے درپے ہوتے ہیں جو شرعاً حرام وگناہ اور بے برکتی کا سبب ہے ۔
دھوکہ دہی: یہ عمل بد بھی آج کے تاجر کی تجارت کا ایک جزوِ لازم بن چکا ہے کہ خریداروں سے میٹھی میٹھی باتیں کرکے اور جھوٹی قسمیں کھاکھا کے اپنے دامِ فریب میںپھانس لیتے ، ناپ تول اور پیمائش میں بھی کمی کرکے بیش تر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور دِل ہی دِ ل میں اپنی اس نازیبا حرکت پر خوش بھی ہوتے ہیں اور انھیں اِس کی بالکل فکر نہیں ہوتی کہ آیا کہ طریقۂ تجارت از روئے شرع جائز بھی ہے یا نہیں ؟ منفعت کے علاوہ اور کسی چیز کی طرف قطعاً توجہ نہیں ہوتی ۔ نہ نمازوں کا کچھ خیال ہوتا ہے اور نہ ہی گناہوں کا ملال ۔
ذیل میں کچھ ایسی احادیث پیش کی جاتی ہیں جن میں مذکورہ برائیوں کے مرتکب تاجروں کے لیے عبرت ہی عبرت ہے ۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا :’’(جھوٹے بول کر اور دھوکہ دہی سے) تجارت کرنے والے قیامت کے دن بدکاروں میں اُٹھائے جائیں گے مگر جو تاجر متقی ہو اور لوگوں کے ساتھ احسان کرے اور سچ بولے ( وہ صالحین کے ساتھ ہوگا)۔( جامع ترمذی)
صحیح مسلم میں ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بیع میں حلف کی کثرت سے پرہیز کرو کہ اگرچہ یہ چیز کو بکوا دیتا ہے مگر برکت کو مٹا دیتا ہے ۔‘‘
اِسی مسلم شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دِن کلام نہیں فرمائے گا اور نہ اُن کی طرف نظر کرے گا اور نہ اُن کو پاک کرے گا اور اُن کو تکلیف دِہ عذاب ہوگا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ وہ خائب وخاسر کون لوگ ہیں؟ فرمایا :(۱) کپڑالٹکانے والا ۔(۲) دے کراحسان جتانے والا ۔(۳) اورجھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سودا چلانے والا ۔ ‘‘
مذکورہ بالا روایتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی تجارت اختیار کی جائے جو اسلامی اصول کے عین مطابق ہو تاکہ دنیاوی کامرانی کے ساتھ اُخروی شادمانی بھی میسر ہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ترقی کے جذبے سے سرشار ہوکر حلال وحرام اور جائز وناجائز کے فرق وامتیاز کو بھول جائیں اورا س کے تمام تر تقاضوں کوپس پشت ڈال کر عتابِ خداوندی کے مستحق ٹھہریں ۔ العیاذ باللہ تعالیٰ ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں حلال طریقے سے تجارت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الکریم الامین ﷺ