• اخلاق وآداب

سچائی اور صداقت کی خیر وبرکت

سچائی اور صداقت کی خیر و برکت

سچائی ایسی صفت ہے جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یکساں طور پر تسلیم کی گئی ہے۔ اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی۔ اسی لیے شریعت اسلامی میں اس کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے، اور سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے۔محسن انسانیت رسول اکرم ﷺ نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا۔ آپ ﷺ ہمیشہ سچ بولتے تھے، حتی کہ آپ ﷺ کی جان کے دشمن بھی آپ ﷺ کو صادق و امین کہتے اور سمجھتے تھے۔
تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی ہمیشہ سچ بولنے کی تاکید فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بھی پوری انسانیت کو سچ بولنے کی تعلیم دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔‘‘ (سورۃ التوبہ) اسی طرح فرمان الٰہی کا مفہوم ہے: ’’(خدا فرمائے گا کہ) آج وہ دن ہے کہ سچ بولنے والوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی۔‘‘ (سورۃ المائدہ) اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتے جو اسراف کرنے والے ہیں اور جھوٹے ہیں۔‘‘ (سورۃ المؤمن) چوں کہ جھوٹ کے نتائج سخت مہلک اور خطرناک ہیں، اور جھوٹ بولنے والے کے ساتھ دوسرے بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہتے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے جھوٹ بولنے والوں کے لیے سخت وعیدیں بیان فرمائیں ہیں۔سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’سچائی کو لازم پکڑو کیوں کہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور آدمی یکساں طور پر سچ کہتا ہے اور سچائی کی کوشش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کی نظر میں اس کا نام سچوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچے رہو اس لیے کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کی راہ بتاتا ہے، اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور اسی کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک اس کا شمار جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
سچ بولنے کی کیسی عظیم اہمیت ہے کہ انسان اپنی سچائی کے ذریعے جنت میں داخل ہوسکتا ہے، جو ہر مسلم کی پہلی اور آخری خواہش ہے۔ جب کہ جھوٹ بولنے کی وجہ سے انسان کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں جلنا ہوگا، اگر موت سے قبل حقیقی توبہ نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ دوزخ سے بچ جائے۔ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کے لیے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے دیگر احکام کو بجا لاتے ہوئے سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم کرلیں۔
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’فروخت کرنے والے اور خریدار کو اختیار ہے جب تک وہ مجلس سے جدا نہ ہوں۔ اگر دونوں نے حقیقت کو نہ چھپایا اور سچ بولا تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ڈال دی جائے گی اور اگر حقیقت کو چھپایا اور جھوٹ بولا تو بیع کی برکت ختم کردی جائے گی۔‘‘ (بخاری و مسلم)
دورِ حاضر میں ہم نے تجارت کو خالص دنیاداری کا کام سمجھ لیا ہے، اس لیے ہمارا یہ ذہن بن گیا ہے کہ جھوٹ اور دھوکا دہی کے بغیر اب تجارت کام یاب نہیں ہوسکتی۔ حالاں کہ اگر تجارت اللہ کے خوف کے ساتھ کی جائے اور کسی کو دھوکا دینے کی غرض سے نہیں بل کہ سچائی اور امانت داری کو اپنا معمول بنا کر کی جائے اور ناجائز کاموں سے پرہیز کیا جائے تو یہی تجارت عبادت بنے گی اور حلال تجارت کے ذریعے حاصل شدہ رقم کو اپنے اور گھر والوں کے اوپر خرچ کرنے پر اجر عظیم ملے گا اور اس کی وجہ سے ہمیں آخرت میں کام یابی حاصل ہوگی۔ جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو تاجر سچا اور امانت دار ہو، وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘
 یہ حدیث مختلف کتب حدیث میں موجود ہے، اس کی سند پر بعض علماء نے کلام کیا ہے، لیکن یہ حدیث اچھے معنی اور مفہوم اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ لہٰذا ہمیں کاروبار میں بھی کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔شہزادۂ رسول ﷺ سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے روایت ہے کہ مجھے حضور اکرم ﷺ کے یہ ارشادات یاد ہیں: ’’جو بات شک میں مبتلا کرے اس کو چھوڑ دو اور اس کو اختیار کر جو شک میں نہ ڈالے۔ سچائی اطمینان ہے اور جُھوٹ شک ہے۔‘‘ (ترمذی) یعنی جس کے حلال ہونے میں شک ہو اس کو چھوڑ دو اور اس کو اختیار کرو جس میں کوئی شک و شبہہ نہ ہو۔ ہمیں جھوٹ کا سہارا نہیں لینا چاہیے، صرف سچ ہی بولنا چاہیے۔ایک جھوٹ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے متعدد جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، لہٰذا ہم صرف سچ بات ہی کہیں۔ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے، اگر ہم نے کبھی جھوٹ بولا ہے تو اللہ تعالیٰ سے پہلی فرصت میں معافی مانگیں۔ کیوں کہ کبیرہ گناہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے مستقل توبہ ضروری ہے۔ بعض مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے مثلاً میاں بیوی میں شدید اختلاف ہوگیا ہے، اور جھوٹ بولنے کی وجہ سے صلح ہوسکتی ہے تو بہ درجہ مجبوری اس کی اجازت ہے، لیکن جھوٹ بولنے کی عادت بنانا یا کسی شخص کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے اور اس کے معاشرے میں بڑے نقصانات ہیں۔
اے اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو سچ بولنے کی توفیق عطا فرما اور اس کے ثمرات سے مالا مال فرما، جھوٹ اور اس کے مہلک اثرات سے ہمیشہ کے لیے ہمیں محفوظ فرما۔ آمین