• اخلاق وآداب

سماجی انصاف کی اہمیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں


 سماجی انصاف کی اہمیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

انسانی اور جنگلی معاشرے میں بنیادی فرق ایسے منصفانہ قوانین کا نفاذ ہے جو کمزور اور طاقتور طبقات میں توازن قائم رکھتے ہیں۔ جس معاشرے میں قوانین کا نفاذ کمزور پڑ جائے وہاں ظلم جنم لیتا ہے جو بالآخر سماجی اکائیوں کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔انسان چونکہ فطرتاََ خطا کا پتلا ہے لہذامعاشرے کی بقا اور فروغ کے لیے سماجی انصاف پر مبنی نظام کا قیام بھی ایک فطری ضرورت تھا چنانچہ تخلیقِ انسانیت کی ابتدا سے ہی اللہ تعالی نے سیدنا آدم علیہ السلام کو ایک منصفانہ معاشرتی نظام قائم کرنے کے لیے اپنا نائب بنا کر زمین پر مبعوث فرمایا۔
سماجی انصاف کے دو بنیادی اصول ہیں۔۱۔معاشرے میں بسنے والے افراد کی ظاہری و باطنی تربیت کرتے ہوئے ان میں ایسی روحانی قوت پیدا کرنا کہ وہ اپنے اندر پنپنے والی منفی قوت کو شکست دے کر باہمی الفت اور اپنائیت کے مضبوط بندھن میں بندھ جائیںکیونکہ افراد معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتے ہیںاور انہی کے ہاتھوں قوموں کی تقدیر لکھی جاتی ہے۔ سماجی انصاف کا حصول افراد کی باطنی تربیت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ جب تک انسان اپنے اندر موجود شیطانی قوتوں کو زیر نہیں کرتا تب تک وہ حسنِ عمل کی ابدی لذت سے محروم رہتا ہے۔ ظاہری تعلیم و تربیت عقل و خرد کو پاک کرتی ہے جب کہ باطنی تعلیم و تربیت قلب و نظرکو تطہیر بخشتی ہے۔
۲۔ معاشرتی فلاح و بہبود پر مبنی قوانین کا نفاذیقینی بنانا اور خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹتے ہوئے کمزوروں کے حقوق کا تحفظ کرنا۔
مندرجہ بالا دونوں کام کرنے کے لیے ایک منظم اور بااختیارقوت کی ضرورت ہوتی ہے جسے عموماََ حکومت یا ریاست کے نام سے تعبیر کیاجاتا ہے۔یہ ریاست ہی کا فرض بنتا ہے کہ وہ افراد کی ظاہری و باطنی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کرے اورسماجی انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں یا خطرہ پیدا کرنے والوں کے ساتھ بھی سختی سے نمٹے۔ سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام میں ہر شخص کا انفرادی کرداربھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔رسول اکرم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ: ’’ تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اپنے ماتحت کے بارے جواب دہ ہے۔حکمران اپنی رعایا کے بارے میں، مرد اپنے اہلِ خانہ کے بارے میں، عورت اپنے گھربار کے بارے میں اورخادم اپنے آقا کے مال کے بارے میں جوابدہ ہیں‘‘(صحیح بخاری شریف)۔ اس فرمان کی روشنی میںاگر ہر شخص اپنا انفرادی کردار دیانتداری کے ساتھ ادا کرے توسماجی انصاف پر مبنی مثالی معاشرے کے قیام کا خواب بآسانی شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
آپ ﷺ کی بعثت جس معاشرے میں ہوئی تھی وہ ہر اعتبار سے انتہائی پسماندہ ترین معاشرہ تھا۔آپ کے تئیس سالہ دورِ نبوت کے پہلے تیرہ سال مکی زندگی پر مشتمل ہیںجن میں آپ نے لوگوں کی اخلاقی وروحانی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرمایا۔ ارشادِ باری تعالی ہے کہ: ’’بے شک اللہ تعالی نے مومنین پر احسان فرمایا کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میںمبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے، انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ یقینا یہ سب لوگ اِس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘ (سورہ آل عمران:۱۶۴)۔ چونکہ حق و باطل کی ستیزہ کاری ازل تا ابد جاری رہے گی لہذا معاشرے میں ظلم کی بنیاد پرجنم لینے والی برائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک منظم سیاسی طاقت بھی ضروری تھی جس کے لیے آپ ﷺ نے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کی اورشدید باہمی اختلافات کی شکار منتشر اقوام کو سماجی انصاف کے نعرے تلے مجتمع کر کے پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جسے آج بھی سماجی انصاف کی حامل ایک مثالی ریاست تسلیم کیا جاتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کا محور ہی سماجی انصاف ہے۔آپ ﷺ نے ریاستِ مدینہ میں بلا تفریقِ رنگ و نسل اور مذہب  عدل و انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنایا۔ایک طاقتور قبیلے کی خاتون نے جب چوری کی تو آپﷺ نے تاریخی کلمات ارشاد فرمائے ۔آپ ﷺ نے کمزوروں کو احساس دلایا کہ ریاست ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان کی پشت پرکھڑی ہے۔معاشی ترقی کے مساوی مواقع فراہم کیے۔ہر شخص کو اس کی استطاعت کے مطابق اس کا جائز مقام دیا۔ سماجی ناانصافی کی بنیاد بننے والے منفی رجحانات کا علمی، فکری اور عملی انداز میں خاتمہ فرمایا۔باہمی اخوت کی ایسی مثال قائم کی کہ انصارومہاجرین کا عقدِ مواخات تاریخِ انسانی کاسنہرا واقعہ ہے۔رعایا کی جان و مال اور عزت و آبرو کو نقصان پہچانے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر فرمائیں۔مادیت پرستی بجائے ایثاروقربانی کا جذبہ پیدا کیا۔جمہوریت، سماجی تحفظ، مذہبی آزادی، حقوقِ نسواں، بین المذاہب ہم آہنگی اورانسانی مساوات جیسے جدید تصورات کاجو شعور اقوامِ متحدہ نے ۱۹۴۵ میں دیاتھا آپ ﷺ۱۴ صدیاں قبل ریاستِ مدینہ میں ان کا عملی نمونہ بھی پیش کر چکے تھے۔
دورِ حاضر میں اسلامی معاشروں میں سماجی انصاف کا شدید فقدان ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ایک بنیادی وجہ قانون کا غیرمساوی اطلاق ہے۔عام آدمی عدالتوں میں جانے سے پناہ مانگتا ہے۔اداروں میں میرٹ کا قتلِ عام ہے۔اکثر فیصلے پسند ناپسند یا ذاتی بغض و عناد کی بنا پر کیے جاتے ہیں حالانکہ فرمانِ تعالی ہے؛’’کسی قوم کی سخت دشمنی بھی تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کر سکو‘‘ (سورہ مائدہ:۸)۔الغرض وہ تمام برائیاں جن کی بنا پر گزشتہ قومیں عذابِ الہی کا شکار ہوئیں وہ آج ہمارے معاشروں میںمختلف پرکشش ناموں کے ساتھ علی الاعلان جاری و ساری ہیں۔نبی اکرم ﷺ کی شانِ رحمۃ اللعالمینی کا صدقہ کہ ہم اجتماعی عذاب سے محفوظ ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے مادہ پرست ذہنیت سے چھٹکارا پا کر اخلاقی وروحانی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ کھوکھلے نعروں پر مشتمل مغربی معاشروں سے مستعار نظامِ حکومت کی پیروی کرنے کی بجائے حقیقی اسلامی اصول و قوانین پر مبنی ریاستِ مدینہ کا نظامِ اپنایا جائے جس نے محض چند سالوں میں ظالم ترین انسانی معاشرے کو رہتی دنیا تک عدل و انصاف کا گہوارا بنادیا۔عصرِ حاضر کے جدید سیاسی و فکری رجحانات کی اندھا دھند تقلید کی بجائے ان کے معاشرتی اثرات کا گہرا ادراک بھی ضروری ہے۔ہمیں چاہیے کہ حقیقی مسلمان کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کی آفاقی سیاسی و سماجی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا عزم کریں تاکہ ہم دنیا کو سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کی حقیقی تصویر دکھا سکیں۔مفکرِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا پیغام بھی یہی ہے؛
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدﷺ سے اجالا کر دے