جھوٹے الزامات لگانے کا وبال
کسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشُبہ بُرا ہے لیکن کسی پر گناہوں اور برائیوں کا جھوٹا اِلزام لگانااِس سے کہیں زیادہ بُرا ہے۔ ہمارے مُعاشرے میں جو برائیاں ناسُور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک تُہمت وبہتان یعنی جھوٹا اِلزام لگانا بھی ہے۔ چوری، رشوت، جادو ٹونے، بدکاری، خِیانت، قتل جیسے جھوٹے اِلزامات نے ہماری گھریلو، کاروباری، دفتری زندگی کا سُکون برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
پیپ اور خون میں رکھا جائے گا: نبی ٔ رَحمت ،خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:’’ جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک رَدغۃُ الخبال(یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا۔ اس) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔ ‘‘(ابوداؤد،ج 3،ص427، حدیث: 3597)
رُسوائی اور بدنامی کا سامنا دشمنی:حسد، راستے سے ہٹانے، بدلہ لینے، سَستی شہرت حاصل کرنے کی کیفیات میں گُم ہوکر تُہمت و بہتان تراشی کرنے والے تو اِلزام لگانے کے بعد اپنی راہ لیتے ہیں لیکن جس پر جھوٹاالزام لگا وہ بقیہ زندگی رُسوائی اور بدنامی کا سامنا کرتا رہتاہے اور بعض اوقات یہی جھوٹا اِلزام غلط فہمی کی بِنا پر بھی لگادیا جاتا ہے،اس بات کو ایک فرضی حکایت سے سمجھئے، ایک گاؤں میں پنچائت لگی ہوئی تھی، معاملہ بھینس چوری کا تھا، گاؤں کے اسکول کے ماسٹر صاحب (Teacher) بھی موجودتھے، اچانک ایک دیہاتی ہانپتا ہوا وہاں آیا اور بلند آواز سے کہنے لگا: ماسٹر جی! وہ بھینس آپ کے باڑے سے مل گئی ہے۔ یہ سن کر ماسٹر صاحب نے اپنا سر پکڑ لیا، پنچائیت کے لوگ بھی حیرت زدہ رہ گئے، لیکن ماسٹر صاحب کے سامنے کچھ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی لہٰذا ایک ایک کرکے کِھسَک لئے۔ وہ دیہاتی بھی چلا گیا۔ ماسٹر صاحب شرمندگی اور افسوس کے مارے وہیں سکتے کے عالم میں بیٹھے رہے۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ دیہاتی دوبارہ بھاگتا ہوا آیا اور ماسٹر صاحب کے پاؤں پکڑ کر کہنے لگا: مجھے معاف کردیں! وہ بھینس آپ کے باڑے سے نہیں بلکہ ساتھ والے باڑے سے ملی ہے۔ ماسٹر جی صدمے کی حالت میں اتنا ہی کہہ سکے: اب تم سارے گاؤں میں اعلان بھی کروا دو تو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ لوگ اب مجھے’’چور‘‘ کے نام سے یاد کیا کریں گے۔
تہمت کا شرعی حکم: اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’کسی مسلمان کو تہمت لگانی حرامِ قطعی ہے خصوصاً معاذااللہ اگرتہمتِ زنا ہو۔ ‘‘(فتاویٰ رضویہ،ج24،ص386) عورت پر اِلزامات لگانا کسی عورت پر بدکاری کا جھوٹا الزام لگانا زیادہ خطرناک ہے لیکن بعض بے باک (Bold) لوگ یہ بھی کر گزرتے ہیں اور اتنانہیں سوچتے کہ اس عورت اور اس کے گھر والوں پر کیا گزرے گی! جو کسی عورت پر زنا کا اِلزام لگائے اور چار گواہوں کی مدد سے اسے ثابت نہ کرسکے تواس کی شرعی سزا’’حد قذف‘‘ ہے یعنی سلطانِ اسلام یا قاضیِ شرع کے حکم سے اسے 80 کوڑے مارے جائیں گے۔ اس کا اُخروی نقصان بھی ذہن نشین رہے، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اِنَّ قَذْفَ الْمُحْصَنَۃِ یَھْدِمُ عَمَلَ مِائَۃِ سَنَۃٍ ‘‘یعنی کسی پاک دامن عورت پر زِناکی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو بربادکرتاہے۔ (معجم کبیر،ج،ص168، حدیث: 3023)
فیض القدیر میں ہے:’’ یعنی اگر بالفرض وہ شخص سو سال تک زندہ رہ کر عبادت کرے تو بھی یہ بُہتان اس کے ان اعمال کو ضائع کردے گا۔ ‘‘(فیض القدیر،ج2،ص601،تحت الحدیث: 2340) ہوٹل ملازم نے خود کو آگ لگا دی کسی پر جھوٹا اِلزام لگانا بہت آسان سمجھا جاتا ہے لیکن جس پر اِلزام لگابسا اوقات اس کی نسلیں بھی متأثر ہوتی ہیں، ذرا سوچئے جس کی اولاد کو یہ طعنہ ملے کہ تمہارا باپ چور(Thief) ہے اس کے دل پر کیا گزرے گی؟
جھوٹے الزام لگانے والوں کا انجام :علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے خوابِ مبارک میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا:’’ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا،میں نے جبرئیل علیہ السلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنھوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بلاوجہ الزامِ گناہ لگانے والے ہیں۔‘‘ (شرح الصدور، ص184)
ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے استفسار فرمایا:کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: ہم میں مفلس(یعنی غریب مسکین) وہ ہے جس کے پاس نہ دِرہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا:میری اُمت میں مُفلس وہ ہے جو قِیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کوگالی دی ہو گی،فلاں پر تہمت لگائی ہو گی،فلاں کا مال کھایا ہو گا،فلاں کا خون بہایا ہو گا اورفلاں کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کاحصّہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمے آنے والے حقوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنَّم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم،ص1069،حدیث:6578)
آج وقت ہے توبہ کرلیجئے اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے تہمت وبہتان سے توبہ کر لیجئے، صاحب ِبہارِ شریعت لکھتے ہیں:’’ بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔ ‘‘(بہارِ شریعت،ج3،ص538) نفس کے لئے یقیناً یہ سخت گِراں (Heavy) ہے مگر دنیا کی تھوڑی سی ذِلت اٹھانی آسان جبکہ آخرت کا مُعاملہ انتِہائی سنگین ہے، رب العالمین کی قسم! دوزخ کا عذاب برداشت نہیں ہو سکے گا۔
کرلے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی
قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی