اعمال میں اخلاص کی اہمیت
انسانیت کی پیدائش اور اس دنیا میں آنے کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور عبادت میں جان اُس وقت پڑتی ہے جب وہ عمل’اخلاص‘ کے ساتھ کیا جائے۔چناں چہ اخلاص تمام اعمال کی روح ہے اور وہ عمل جس میں اخلاص نہ ہو اُس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو۔ ہر انسان کا بنیادی مطمع نظر یہی ہونا چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے اس کی رضا حاصل کرے اور جنت کا داخلہ اس کو نصیب ہو اس مقصد کے لیے اخلاص کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال کا حسن معتبر ہوتا ہے نہ کہ محض کثرت۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جس نے موت اور زندگی کو (اس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے‘‘(الملک: 2)
اہل علم نے اخلاص کی حقیقت بیان کر تے ہوئے فرمایا:’’اطاعت میں صر ف اللہ تعالیٰ کو مقصود بنانا اخلاص ہے۔‘‘ بعض نے کہا کہ’’عمل اس انداز سے کرنا کہ اُس میں نہ تو مخلوق کی واہ واہ یا مذمت پیش نظر ہو اور نہ ہی خود وہ کام کرنے والا شخص اس پر اِترا رہا ہو۔‘‘ بعض کے نزدیک ’’انسان کے اعمال میں اُس کا ظاہر و باطن باہم موافق ہو‘ یہ اخلاص ہے۔‘‘ بعض نے فرمایا:’’اپنے اعمال پر صرف اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہو۔‘‘ایک حدیث مبارکہ میں حضور سرورِکائناتﷺ نے فرمایا: ’’یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے متقی، مخلوق سے مستغنی اور اپنے نیک اعمال مخلوق کے دکھاوے سے بچنے کے لیے چھپاکرکرنے والے سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (مسلم)حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اخلاص سے خالی عمل کرنے والے شخص سے کہہ دو کہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو نہ تھکائے، کیوں کہ بغیر اخلاص کے عمل کرنے والے کی مثال اُس مسافر کی سی ہے، جو اپنے سفری سامان کی جگہ مٹی سے اپنی چادر بھر رہا ہو۔ کیوں کہ اس طرح وہ خود کو فضول کام میں تھکا رہا ہے،جس میں اُسے کوئی نفع نہیں ہے۔‘‘
سیدنا جنیدبغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اخلاص ،اعمال کا کدو رتو ں سے پاک ہونے کا نام ہے ۔‘‘،حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’لوگو ں کو دکھانے کے لئے عمل تر ک کرنا’ ریاکاری‘ اوران کے لئے عمل کرنا’ شرک‘ ہے اور اخلاص یہ ہے کہ اللہ ان دونوں چیزوں سے محفو ظ رکھے ۔‘‘حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایۂ ناز کتاب ’ احیاء العلوم‘ میں اخلاص سے متعلق بڑے اہم اور قیمتی افادات تحریر فرمائے ہیں ۔کہتے ہیں کہ حالت ِ نزع میں لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ ’ کچھ نصیحت اور وصیت فرمائیں ‘ تو آپ آخر دم تک یہی فرماتے رہے کہ ’’ علیک بالاخلاص ‘‘ یعنی اپنے اوپر اخلاص کو لازم جانو۔ یہاں تک کہ آپ کا وصال ہوگیا۔حضرت امام ربانی سیدنامجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکتوبات شریفہ میں جابجاعلم وعمل میں اخلاص کو ایمان کی جان اور مومن کامل کی پہچان بتا یا ہے ۔
حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہواکہ انسان کب مخلص ہوتا ہے ۔ فرمایا:’’ جب شیر خوار بچہ کی طرح اس کی عادت ہو ۔‘‘ یعنی شیرخوار بچہ کی کوئی تعریف کرے تو اسے خوش نہیں لگتی اور مذمت کرے تو اسے بری نہیں معلوم ہوتی جس طرح وہ اپنی مدح اور ذم سے بے پرواہ ہوتاہے اسی طرح انسان جب مدح وذم کی پرواہ نہ کرے تو مخلص کہا جاسکتاہے ۔
اخلاص کے فوائدوثمرات:
اخلاص کے بڑے اچھے ثمرات اور بڑے عظیم اور جلیل القدر فوائد ہیں، ان میں سے چند فوائد درج ذیل ہیں:
(۱)دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اخلاص کے فضائل و ثمرات میں سے ہیں۔(۲)اخلاص اعمال کی قبولیت کا سب سے عظیم سبب ہے،بشرطیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع شامل ہو۔
(۳)اخلاص کے نتیجہ میںبندے کو اللہ کی اورپھر فرشتوں کی محبت حاصل ہوتی ہے اور زمین (والوں کے دلوں)میں اس کی مقبولیت لکھ دی جاتی ہے۔(۴)اخلاص عمل کی اساس اور اس کی روح ہے۔
(۵)اخلاص تھوڑے عمل اور معمولی دعا پر بیش بہا اجر اور عظیم ثواب عطا کرتا ہے۔(۶)مخلص کا ہر عمل جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہو لکھا جاتا ہے، وہ عمل مباح ہی کیوں نہ ہو۔(۷)مخلص جس عمل کی بھی نیت کرے لکھ لیا جاتاہے گر چہ اسے انجام نہ دے سکے۔(۸)مخلص اگر سو جائے یا بھول جائے تو معمول کے مطابق جو عمل کرتا تھا اسے لکھا جاتاہے۔(۹)اگر مخلص بندہ بیمار ہو جائے یا حالت سفر میں ہو تواس کے اخلاص کے سبب اس کے لئے وہی عمل لکھا جاتا ہے جو وہ حالت اقامت وصحت میں کیا کرتا تھا۔(۱۰)اخلاص آخرت کے عذاب سے نجات دلاتا ہے۔(۱۱)دنیا و آخرت کی مصیبتوں سے نجات اخلاص کے ثمرات میں سے ہے۔(۱۲)اخلاص کے سبب آخرت میں درجات کی بلندی حاصل ہوتی ہے۔(۱۳)حسن خاتمہ نصیب ہوتا ہے۔(۱۴)دعاؤں کی قبولیت حاصل ہوتی ہے۔(۱۵)قبر میں نعمت اور شادمانی کی بشارت ملتی ہے۔(۱۶)جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات عطاہوتی ہے۔