سود کی حرمت اور تباہ کاریاں
تحریر: مفتی محمد رمضان جامی
مال اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، جس کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے؛ لیکن شریعتِ اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ صرف جائز وحلال طریقہ سے ہی مال کمائے؛ کیوں کہ کل قیامت کے دن ہر شخص کو مال کے متعلق اللہ رب العزت کو جواب دینا ہوگا کہ کہاں سے کمایا یعنی وسائل کیا تھے اور کہاں خرچ کیا یعنی مال سے متعلق حقوق العباد یا حقوق اللہ میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی۔
مال کے نعمت اور ضرورت ہونے کے باوجود، خالقِ کائنات اور تمام نبیوں کے سردار حضورِ اکرم ﷺ نے مال کو متعدد مرتبہ فتنہ، دھوکے کا سامان اور محض دنیاوی زینت کی چیز قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مال ودولت کے حصول کے لیے کوئی کوشش ہی نہ کریں؛ کیوں کہ حلال رزق کا طلب کرنا اور اس سے بچوں کی تربیت کرنا خود دین ہے؛بلکہ مقصد یہ ہے کہ اللہ کے خوف کے ساتھ زندگی گزاریں اور اخروی زندگی کی کامیابی کو ہر حال میں ترجیح دیں۔ کہیں کوئی معاملہ درپیش ہو تو اخروی زندگی کو داؤ پرلگانے کے بجائے فانی دنیاوی زندگی کے عارضی مقاصد کو نظر انداز کردیں، نیز شک وشبہ والے امور سے بچیں۔
اِن دنوں حصول مال کے لیے ایسی دوڑ شروع ہوگئی ہے کہ اکثر لوگ اس کا بھی اہتمام نہیں کرتے کہ مال حلال وسائل سے آرہا ہے یا حرام وسائل سے؛ بلکہ کچھ لوگوں نے تو اَب حرام وسائل کو مختلف نام دے کر اپنے لیے جائز سمجھنا شروع کردیا ہے؛ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے تو مشتبہ چیزوں سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے؛ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ صرف حلال وسائل پر ہی اکتفاء کرے، جیساکہ حضورِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو؛ کیوں کہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی) نیز نبی اکرم ﷺ کا ارشادہے کہ حرام کھانے،پینے اور حرام پہننے والوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں۔ (مسلم)
ہمارے معاشرہ میں جو بڑے بڑے گناہ عام ہوتے جارہے ہیں، ان میں سے ایک بڑا خطرناک اور انسان کو ہلاک کرنے والا گناہ سود ہے۔
سود کیا ہے؟
وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں اور روپے وغیرہ میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو عوض کچھ زائد دینا پڑتا ہو ربا اور سود کہلاتا ہے جس کو انگریزی میں Interest یا Usuryکہتے ہیں۔ جس وقت قرآنِ کریم نے سود کو حرام قرار دیا اس وقت عربوں میں سودکا لین دین متعارف اور مشہور تھا، اور اُس وقت سود اُسے کہا جاتا تھا کہ کسی شخص کو زیادہ رقم کے مطالبہ کے ساتھ قرض دیا جائے خواہ لینے والا اپنے ذاتی اخراجات کے لیے قرض لے رہا ہو، یا پھر تجارت کی غرض سے، نیز وہ Simple Interestہو یا Compound Interest، یعنی صرف ایک مرتبہ کا سود ہو یا سود پر سود۔ مثلاً زید نے بکر کو ایک ماہ کے لیے ۰۰۱ روپے بطور قرض اس شرط پر دیے کہ وہ ۰۱۱ روپے واپس کرے، تو یہ سودہے؛ البتہ قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے تو یہ جائز ہی نہیں؛ بلکہ ایسا کرنا نبیِ اکرم ﷺ کے عمل سے ثابت ہے؛ لیکن پہلے سے زائد رقم کی واپسی کا کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔ بینک میں جمع شدہ رقم پر پہلے سے متعین شرح پر بینک جو اضافی رقم دیتا ہے، وہ بھی سود ہے۔
سود کی حرمت
سود کی حرمت قرآن وحدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(سورۃ البقرہ ۵۷۲) اللہ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یَمْحَقُ اللہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ (سورۃ البقرہ ۶۷۲) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ جب سود کی حرمت کاحکم نازل ہوا تو لوگوں کا دوسروں پر جو کچھ بھی سود کا بقایا تھا، اس کو بھی لینے سے منع فرمادیاگیا: وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مْومِنِیْنَ (سورۃ البقرہ ۸۷۲) یعنی سود کا بقایا بھی چھوڑدو اگر تم ایمان والے ہو۔
سود لینے اور دینے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا اعلانِ جنگ
سود کو قرآنِ کریم میں اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کیے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یَا اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُومِنِیْنَ۔ فَاِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَاْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہِ (سورۃالبقرہ ۸۷۲۔ ۹۷۲) اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ! سود کھانے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ، مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ مشہور صحابیِ رسول سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے۔ (تفسیر ابن کثیر)
سود کھانے والوں کے لیے قیامت کے دن کی رسوائی وذلّت
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سود کھانے والوں کے لیے کل قیامت کے دن جو رسوائی وذلت رکھی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں کچھ اس طرح فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُونَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُونَ اِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورۃ البقرہ ۵۷۲) جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو۔ سود کی بعض شکلوں کو جائز قرار دینے والوں کے لیے فرمانِ الٰہی ہے: ذَلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا (سورۃ البقرہ ۵۷۲) یہ ذلت آمیز عذاب اس لیے ہوگا کہ انھوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع یعنی خرید وفروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔
سودکھانے سے توبہ نہ کرنے والے لوگ جہنم میں جائیں گے
فَمَنْ جَآئَہُ مَوْعِظَۃٌ مِّن رَّبِّہِ فَانْتَھیٰ فَلَہ مَاسَلَفَ، وَاَمْرُہٗ اِلَی اللہِ، وَمَنْ عَادَ فَاُولٓئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ، ھُمْ فِیْھَا خَالِدُونَ (سورہ البقرہ ۵۷۲) لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے اور اس کی (باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیاتو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
غرضیکہ سورت بقرہ کی ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو ہلاک کرنے والے گناہ سے سخت الفاظ کے ساتھ بچنے کی تعلیم دی ہے اور فرمایاکہ سود لینے اور دینے والے اگر توبہ نہیں کرتے ہیں تو وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں، نیز فرمایا کہ سود لینے اور دینے والوں کو کل قیامت کے دن ذلیل ورسوا کیا جائے گا اور وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔۔۔ نبیِ اکرم ﷺ نے بھی سود سے بچنے کی بہت تاکید فرمائی ہے اور سود لینے اور دینے والوں کے لیے سخت وعیدیں سنائی ہیں جن میں سے بعض احادیث ذیل میں ذکرکی جارہی ہیں:
سود کے متعلق نبیِ اکرم ﷺ کے ارشادات
حضور اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: (آج کے دن) جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا، اور سب سے پہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں وہ ہمارے چچا سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سود ہے۔ وہ سب کا سب ختم کردیا گیا ہے؛ چونکہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سود کی حرمت سے قبل لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے؛ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایاکہ آج کے دن میں اُن کا سودجو دوسرے لوگوں کے ذمہ ہے وہ ختم کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم، باب حجۃ النبی)
حضورِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! وہ سات بڑے گناہ کونسے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضورِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (۱)شرک کرنا، (۲) جادو کرنا، (۳)کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، (۴)سود کھانا، (۵)یتیم کے مال کو ہڑپنا، (۶)(کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا، (۷)پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری ومسلم)
حضورِ اکرم ﷺ نے سود لینے اور دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ سود لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم ﷺ کی لعنت کے الفاظ حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں موجود ہیں۔ (مسلم، ترمذی، ابوداود، نسائی)
حضورِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: چار شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے لازم کرلیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہیں کریں گے اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں کا ذائقہ چکھائیں گے۔ پہلا شراب کا عادی، دوسرا سود کھانے والا، تیسرا ناحق یتیم کا مال اڑانے والا، چوتھا ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (کتاب الکبائر للذہبی)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سود کے ۰۷ سے زیادہ درجے ہیں اور ادنی درجہ ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے زناکرے۔(رواہ حاکم، البیہقی، طبرانی، مالک)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک درہم سود کا کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ ہے۔ (رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر)