صلح جوئی کی اہمیت وفضیلت
اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کے جو اعمال پسند ہیں ان میں ایک صلح صفائی کرنا اور کرواناہے۔ چونکہ ہر انسان کا مزاج اور طبیعت دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اس لیے اکٹھے رہن سہن، لین دین اور باہمی معاملات و تعلقات میں اکثراوقات دوسرے کی خلافِ مزاج باتوں سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ غلط فہمیاں بڑھتے بڑھتے نفرت و عداوت، قطع کلامی و قطع تعلقی، دشمنی ولڑائی جھگڑے، خون خرابے اور قتل و غارت تک جا پہنچتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں فساد شروع ہو جاتا ہے،انسانی نظامِ زندگی تباہ ہو کر رہ جاتا ہے، حتیٰ کہ خاندانوں کے خاندان اجڑ جاتے ہیں۔اس موقع پراسلام ہماری خوب رہنمائی کرتا اور مسلمانوں کے درمیان صلح صفائی کروانے کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر صلح کی اہمیت و ضرورت، اس کی ترغیب اور خاندانی و معاشرتی نظام زندگی میں اس کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے، اسے’خیر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، اسے ضروری قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کی مدح و تعریف بیان کی گئی ہے جو صلح پسند ہوں۔
اللہ پاک نے قرآنِ مجید کے پارہ 24 سورۃ الحجرات کی آیت 10 میں صلح کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اوراللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔‘‘ قارئینِ کرام صلح کروانا یہ سنتِ الہیہ بھی ہے اور سنت مصطفیٰ ﷺ بھی ہے، اللہ پاک روزِ قیامت بھی مسلمانوں کے مابین صلح کروائے گا چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کے درمیان تشریف فرما تھے، اچانک آپ ﷺ نے تبسم فرمایا،سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ قربان! آپ نے کس لیے تبسم فرمایا؟ ارشاد فرمایا: ’’میرے دو اُمتی اللہ کی بارگاہ میں گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے، ایک عرض کر ے گا: ’’یااللہ اِس سے میرا اِنصاف دلا کہ اِس نے مجھ پر ظلم کیا تھا۔‘‘اللہ دعویٰ کرنے والے سے فرمائے گا: ’’جس پر دعویٰ کیا گیا ہے وہ کیا کرے کہ اس کے پاس تو اب کوئی نیکی بھی باقی نہیں ہے۔‘‘ مظلوم عرض کرے گا: ’’میرے گناہ اس کے ذِمّے ڈالدے۔‘‘ اِتنا ارشاد فرما کر سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چشمان کرم میں آنسو آگئے، فرمایا: ’’وہ دن بہت عظیم دن ہوگا کیونکہ اس وقت ہر ایک اس بات کا ضرورت مند ہو گا کہ اس کا بوجھ ہلکا ہو۔ اللہ پاک مظلوم سے فرمائے گا: ’’دیکھ تیرے سامنے کیا ہے؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’اے پروردگار! میں اپنے سامنے سونے کے بڑے شہر اور بڑے بڑے محلات دیکھ رہا ہوں جو موتیوں سے آراستہ ہیں۔ یہ شہر اور عمدہ محلات کس پیغمبر یا صدیق یا شہید کے لئے ہیں؟‘‘اللہ فرمائے گا: ’’یہ اس کے لئے ہیں جوان کی قیمت ادا کرے۔‘‘ بندہ عرض کرے گا: ’’ان کی قیمت کون ادا کر سکتا ہے؟‘‘ رب فرمائے گا: ’’تو ادا کر سکتا ہے۔‘‘ وہ کہے گا: ’’وہ کس طرح؟‘‘ ارشاد ہوگا: ’’اس طر ح کہ تو اپنے بھائی کے حقوق معاف کر دے۔‘‘ بندہ عرض کرے گا: ’’اے میر ے مالک! میں نے سب حقوق معاف کئے۔‘‘ تو رب فرمائے گا: ’’اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو اور دونوں اکٹھے جنت میں چلے جاؤ۔‘‘ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مخلوق میں صلح کرواؤ کیونکہ اللہ بھی بروزِ قِیامت مسلمانوں میں صلح کروائے گا۔‘‘ (المستدرک)
قرآن مجید کی آیات بینات کے ساتھ احادیث مبارکہ کی روشنی میں بھی یہ عمل خیر و برکت کا موجب، خطاؤں اور گناہوں کی مغفرت کا سبب اور دنیوی و اخروی برکات کے حصول کا ذریعہ ہے۔