• اہل بیت اطہار علیہم السلام

ام المومنین سیدہ ام سلمہ سلام اللہ علیہا

زوجۂ سید المرسلینﷺ 
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا
 

 

مکہ مکرمہ میں ’قریش ‘ سب سے زیادہ معروف اور مشہور خاندان تھا یہ جد الانبیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔ اس خاندان کی ایک شاخ’ بنو مخزوم‘جس کا مکہ مقدسہ میں بہت اثر ورسوخ تھا۔اللہ کے رسول ﷺ کی اہلیہ محترمہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی اسی خاندان کے ایک بڑے سردار سہیل بن مغیرہ کی بیٹی تھیں اور ان کا نام’ ہند‘ تھا، سہیل کی کنیت ’ابوامیہ ‘تھی اور وہ اسی نام سے مشہور ہوئے ۔ 
آپ کا مکمل نام اور نسب اس طرح ہے :’’ ہندبنت ابی امیہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم‘‘ ، آپ کی والدہ کا نام’ عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ‘ ہے ۔( الاصابہ )
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہ ابن عبد الاسد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا، جن سے چار بچے پیدا ہوئے آپ نے اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر حبشہ سے مدینہ طیبہ واپس آئیں۔حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ غزوۂ احد میں شریک ہوئے تولڑائی کے دوران جو زخم آئے کچھ عرصہ مندمل ہونے کے بعد دوبارہ تازہ ہوگئے اور آپ رضی اللہ عنہ نے انہی زخموں کی وجہ سے ۴ ھ میں اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا۔(مدارج النبوت)
اُمّ المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر کے وصال کے بعد اس دعا کو اپنا ورد بنالیا جسے حضور تاجدارِ مدینہ ﷺ نے مسلمان کو مصیبت کے وقت پڑھنے کی تعلیم فرمائی وہ دعا یہ ہے :’’اَللّٰھُمَّ اجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَیرًا مِّنْھَا‘‘ اے اللہ عزوجل !مجھے اَجر دے میری مصیبت میں اور میرے لئے اس سے بہتر قائم مقام بنا۔
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اپنے شوہر کے وصال کے بعد اس دعا کو پڑھتی تھی اور اپنے دل میں کہتی کہ ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر مسلمانوں میں کون ہوگا۔ لیکن چونکہ یہ ارشاد رسول اکرم ﷺ کا تھا اس لئے اسے پڑھتی رہی۔نیز سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آقا ئے دو جہاں ﷺ  سے سن رکھاتھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو میت کے سرہانے موجود ہو وہ اچھی دعا مانگے اس وقت جو بھی دعا مانگی جائے فرشتے آمین کہتے ہیں‘‘ جب ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصال فرمایا تو میں نے بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہو کر عرض کیا: یارسول اللہ :ﷺ ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد ان کے فراق میں کیا کہوں حضور ﷺ نے فرمایا: یہ کہو ’’اے اللہ! عزوجل انہیں اور مجھے بخش دے اور میری عاقبت اچھی بنا‘‘ پھر میں اسی دعا پر قائم ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر عوض عطا فرمایا اور وہ محبوب رب العالمینﷺ تھے ۔حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے وصال پر حضوراکرم ﷺ تعزیت کے لئے اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے اور دعا فرمائی:’’ اے خدا ان کے غم کو تسکین دے اور ان کی مصیبت کو بہتر بنا اور بہتر عوض عطا فرما۔‘‘عدت ختم ہونے کے بعد سیدنا ابوبکرصدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے اپنا اپنا پیام نکاح بھیجا لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کے پیام کو منظور نہ فرمایا پھر جب حضور اکرم ﷺ کا پیام کسی شخص کے ذریعے آیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے جواباً فرمایا: ’’مرحبا برسول اللہ‘‘ﷺ ، تو سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ ﷺ کا نکاح ماہ شوال ۴ھ میں ہوا۔ نکاح کے وقت ان کی عمر 26 سال تھی۔سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کوحق مہر میں حضور ﷺ نے کھجور کی چھال سے بھرا ہوا ایک چرمی تکیہ، دو مشکیزے اور دو چکیاں عطا فرمائیں، جو کسی ازواج مطہرات کو عطا نہیں فرمائی تھیں، نکاح کے بعد وہ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر لائی گئیں ۔  ( طبقات ابن سعد)

اوصاف وکمال اور فہم و فراست
صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنی اپنی قربانیاں کر کے سب لوگ احرام کھول دیں اور بغیر عمرہ ادا کئے سب لوگ مدینہ منورہ واپس لوٹ جائیں کیوں کہ اس شرط پر صلح حدیبیہ ہوئی ہے ، لوگ اس رنج و غم میں تھے ، ایک شخص بھی قربانی کیلئے تیار نہیں تھا، حضور ﷺ کو صحابہ کرام کے اس طرز عمل سے روحانی کوفت ہوئی اور حضور ﷺ نے اس معاملہ کا ذکر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کیا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: آپ خود قربانی ذبح فرمائیں، احرام کھول دیں اور سرمنڈوالیں۔چنانچہ حضور ﷺ نے ایسا ہی کیا، صحابہ کرام نے یقین کر لیا کہ اب حضورﷺ صلح حدیبیہ کے معاہدہ سے ہرگز ہرگز نہ بدلیں گے ، صحابہ نے حضور ﷺ کی پیروی میں اپنی اپنی قربانیاں دیں اور احرام اتار کر سر منڈوا لیا- حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی دانشمندی اور عقل و ذہانت کی وجہ سے یہ مسئلہ حل ہو گیا، یہ آپ کی دانشمندی و بصیرت کی سب سے بہتر مثال ہے ۔ (صحیح بخاری)اللہ تعالیٰ نے انھیں خوبروئی، علم و ذہانت اور اصابت رائے کی نعمتوں سے کافی حصہ دیا تھا،قرآن کریم کی قرأت نہایت عمدہ طریقے سے کرتی تھیں اور آپ کی قرأت حضور ﷺ کی قرأت سے مشابہت رکھتی تھی۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو حدیث سننے کا بہت شوق تھا، ایک دن بال گندھوا رہی تھیں، رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور خطبہ دینا شروع کیا، ابھی زبان مبارک سے’’یٰاایھاالناس‘‘ نکلا تھا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اٹھ کھڑی ہوئیں اور اپنے بال خود باندھ لیے، اور بڑے انہماک سے پورا خطبہ سنا، سرور عالم ﷺ سے نہایت عقیدت تھی، حضور ﷺ کے موئے مبارک تبرکاً چاندی کی ڈبیہ میں محفوظ رکھے تھے ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ صحابہ میں سے کسی کو تکلیف پہنچتی تو وہ ایک پیالہ پانی سے بھر کر ان کے پاس لاتے ، وہ موئے مبارک نکال کر اس پانی میں حرکت دے دیتیں، اس کی برکت سے تکلیف دور ہو جاتی ۔
ام المؤمنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا مجھے جبرئیل امین علیہ السلام نے عالم بیداری میں بتایا کہ میرا یہ بیٹا (سیدنا)حسین ( علیہ السلام )عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے ۔(کنزالعمال) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : حضور ﷺ نے فرمایا : اے ام سلمہ رضی اللہ عنہا جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا ۔(خصائص کبری)

روایات ِ حدیث مبارکہ 
اُم المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تین سو اٹھترحدیثیں مروی ہیں، ان میں تیرہ حدیثیں بخاری و مسلم میں ہیں ۔ صرف بخاری میں تین حدیثیں اور تنہا مسلم میں تیرہ اور باقی دیگر کتابوں میں مروی ہیں۔
زیارت جبرائیل امین علیہ السلام 
 ایک دفعہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا آپ ﷺ کے پاس موجود تھیں، پس وہ آپ ﷺ  سے شرف گفتگو حاصل کرکے بارگاہ مقدس سے رخصت ہوئے توآپ ﷺ نے حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا سے دریافت فرمایا : یہ کون تھے ؟ انہوں نے جواباً عرض کیا :یہ دحیہ کلبی تھے ، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم میں نے انہیں دحیہ قلبی ہی سمجھا تھا، لیکن میں نے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے دوران خطبہ بتایا کہ وہ حضرت جبرئیل تھے ۔(صحیح بخاری )
وصال باکمال
اُم المؤمنین حضرتِ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن میں سے سب سے آخر میں ہوا،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال شہزادہ رسول سیدنا امام حسین سلام اللہ علیہ کی شہادت کے بعد ہوا۔ اور اس قول کی تائیداس روایت سے ہوتی ہے جسے ترمذی نے ایک انصاری صحابی کی بیوی سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا: وہ کہتی ہیں میں ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو روتے ہوئے دیکھ کر عرض کیا اے ام سلمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا کس چیز نے رلایا ہے ؟ فرمایا کہ میں نے ابھی ابھی خواب میں تاجدار مدینہ ﷺ کو دیکھا ہے ۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا سر انور اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے محاسن  شریف گرد آلود ہیں اورگر یہ فرمارہے ہیں، میں نے عرض کیا :یارسول اللہ ! ﷺ کس بات پر گریہ فرمارہے ہیں۔ فرمایا: جہاں (میرے شہزادے )حسین(سلام اللہ علیہ ) کو شہید کیا گیا وہاں موجود تھا۔(سنن ترمذی)علامہ ذہبی کی تحقیق کے مطابق امام عالی مقام سلام اللہ علیہ کی شہادت کے وقت آپ پر غشی طاری ہوگئی ، بہت زیادہ رنجیدہ خاطر ہوئیں اور پھر بہت کم عرصہ حایت رہنے کے بعد انتقال فرمایا ۔ ان کی نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بقول دیگر سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی اور جنت البقیع شریف میں آرام فرما ہیں ۔( سیر اعلام النبلا، المواہب اللدنیہ )