ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا
ام المومنین سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا ،جن کا سلسلہ نسب کچھ اِس طرح ہے :’’ صفیہ بنت حی بن اخطب بن سعید بن عامر بن عبید بن کعب ‘‘ آپ کا سلسلہ نسب پیغمبر خدا سیدنا ہارون علیہ السلام سے جاملتا ہے جو اوالعزم پیغمبر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے برادرِ گرامی ہیں ۔
آپ کی ماں کا نام برہ ( یاضرہ) بنت سمواَل تھا اور والد کا نام حیی بن اخطب تھا جو بنو نضیر کا سردار تھا۔ حیی بن اخطب، سیدنا ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ہونے کی وجہ سے اپنی قوم میں بے حد معزز و محترم تھا۔ تمام قوم اس کی وجاہت کے آگے سرجھکاتی تھی۔سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی ولادت ِ باسعادت کے بارے میں مستقل کوئی صراحت کتب سیروتاریخ میں منقول نہیں البتہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت باسعادت ہجرت سے دس سال قبل 3نبوی میں قبیلہ بنو نظیر میں ہوئی ۔اِ س قبیلے کو اُس وقت مدینہ منورہ میں آباد یہودیوں کے دو اور قبیلے بنوقریظہ اور بنوقینقاع کے مقابلے میں ہر لحاظ سے برتری حاصل تھی ۔اِس طرح آپ نے جس گھرانے میں جنم لیا وہ عزت وشرافت ، سیادت ونجابت کا گہوارہ تھا ، مال ودولت کی بھی فراوانی تھی ۔ اِس لیے آپ کی پرورش ونشوونما پورے نازونعم اور عیش وعشرت کے ساتھ ہوئی ۔ایک روایت کے مطابق چودہ بر س کی عمر میں سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی شادی ایک مشہور اور نامور شہسوار وشاعر سلام بن مِشکم قرظی سے ہوئی لیکن آپس میں نبھا نہ ہونے کی وجہ سے دونوں میں جدائی واقع ہوگئی ۔ تو حیی بن اخطب نے ان کا نکاح بنی قریظہ کے مقتدر سردار کنانہ بن ابی الحقیق سے کردیا وہ خیبر کے رئیس ابو رافع کا بیٹا تھا اور خیبر کے قلعہ القموس کا حاکم تھا، کنانہ معرکہ خیبر میں مقتول ہوا۔ یہ لڑائی یہودیوں کے بہت تباہ کن ثابت ہوئی ، ان کے کئی نامور اور بڑے بڑے سردار جن میں سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا باپ ، چچا، بھائی اور شوہر بھی شامل تھے ،مارے گئے اور ان کے اہل وعیال جن میں سیدہ صفیہ بھی تھیں قید کیے گئے ، یہ لڑائی یہودیوں کے لیے اِس قدر تباہ کن ثابت ہوئی کہ اس کے بعد کبھی وہ دوبارہ سراُٹھانے کے قابل ہی نہ رہے ۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! صفیہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی رئیسہ ہیں، خاندانی وقار ان کے لباس سے عیاں ہے، وہ ہمارے سردار یعنی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے موزوں ہیں۔ حضور ﷺ نے یہ مشورہ قبول فرماکر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کردیا اور انھیں یہ اختیار دے دیا کہ چاہیں وہ اپنے گھر چلی جائیں یا پسند کریں تو حضور ﷺ کے نکاح میں آجائیں۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے حضوررحمت عالمین ﷺ کے نکاح میں آنا پسند کیا اور ان کی رضامندی سے حضور ﷺ نے ان سے نکاح فرمایا۔
حضورﷺ نے ان کی آزادی کو ہی ان کا مہر قرار دیا، خیبر سے چل کر مقام صہبا میں اترے اور ’’صہبا‘‘ کے مقام میں نکاح کیا گیا ۔ ولیمہ عجب شان سے ہوا، چمڑے کا دسترخوان بچھادیا گیا اورسیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اعلان کردو کہ جس کے پاس جو کچھ توشہ جمع ہے وہ لے آئے، کسی نے کھجور، کسی نے پنیر، کسی نے ستو اور کسی نے گھی لایا، جب اس طرح کچھ جمع ہوگیا تو سب نے ایک جگہ بیٹھ کر کھالیا، اس ولیمہ میں گوشت اور روٹی کچھ نہ تھا۔ (بخاری، مسلم)۔ مقام ’’صہبا‘‘ میں تین روز قیام رہا اور سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا پردے میں رہیں، جب حضورسرورِعالم ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے تو خود سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو اونٹ پر سوار کرکے عبا سے ان پر پردہ کیا کہ کوئی نہ دیکھ سکے، گویا کہ یہ اعلان تھا کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ام المومنین ہیں، ام ولد نہیں۔
مدینہ طیبہ پہنچ کر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو حضوررحمت عالمین ﷺ نے سیدنا حارث بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پر اتارا۔ سیدنا حارث بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہ ،رسول اللہ ﷺ کے نہایت جاں نثار ووفا شعار صحابی تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان کو مال ودولت سے بھی نوازا تھا ،ایسے موقع پر وہ سبقت لے جایا کرتے تھے ،رسول اللہ ﷺ اورآپ کے اہل بیت اطہارعلیہم السلام کی ضروریات کا خیال رکھنا اپنے لیے سعادتِ دارین اور باعث ِ نجات سمجھتے تھے ۔اِس وقت بھی ان ہی کا ایثار کام آیا ، سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کچھ عرصے تک آپ کے مکان پر ہی مقیم رہیں۔حضور انورﷺ کی زوجیت میں آنے سے قبل ہی سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے کئی ایسے خواب دیکھے تھے جن سے اس بات کی بشارت مل رہی تھی کہ آپ ، ام المومنین کے شرف سے مشرف ہوں گی ۔
سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا میں بہت سے محاسن جمع تھے ۔آپ نہایت حلیم الطبع، خلیق، کشادہ دل اور صابرہ تھیں۔طبقات ِابن سعد میں ہے آپ رضی اللہ عنہا جب ام المومنین کی حیثیت سے مدینہ منورہ تشریف لائیں تو شہزادیٔ مصطفی ﷺ ، خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا آپ سے ملنے تشریف لائیں تو اس وقت آپ کے کانوں میں سونے کی بالیاں تھیں ،آپ نے رسول کریم ﷺ کی شہزادی کو تحفے میں دے دیں اور جو خواتین سیدہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ آئیں انھیں بھی کچھ نہ کچھ دیا ۔
سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نبی کریم ﷺ کو نہایت محبت تھی اور ہر موقع پر ان کی دلجوئی فرماتے تھے۔مسند ابویعلی میں ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ اِن کے ہاں تشریف لائے اُس وقت آپ کے پاس چار ہزار کھجور کی گٹھلیاں پڑی ہوئی تھیں جن پر آپ تسبیح پڑھ رہی تھیں ، یہ دیکھ کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا : ’ ’ جب سے میں تمہارے پاس کھڑا ہوں اِس دوران ، میں نے تم سے زیادہ رب العالمین کی تسبیح بیان کی ہے ،سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا عرض کرنے لگیں :یارسول اللہ ﷺ ! مجھے بھی سکھائیے ۔ ارشاد فرمایا کہ اِس طرح کہو:’’ سبحان اللہ عدد ماخلق ‘‘۔۔ الخ ( ساری تسبیح اللہ کے لیے جتنی اُس کی مخلوق کی تعداد ہے )
کتب سیر وتذکار میں آپ کے اخلاق حسنہ اور عادات مبارکہ کا ذکر تفصیل کے ساتھ موجود ہے ۔ رسول کریم ﷺ کی ہمہ دم معیت ورفاقت نے ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو شمائل حمیدہ اور خصائل حسنہ کا ایسا حسین گلدستہ بنادیا تھا جس میں قسم قسم کے رنگ بہ رنگے پھول کھلے ہوئے تھے ۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا دامن اخلاقی جواہر پاروں سے مالا مال تھا۔ محبت رسول ﷺ ،صدق ،وفا شعاری ، احسان پذیری اور صاف گوئی آپ رضی اللہ عنہا کے مخصوص اوصاف تھے ۔ آپ عاقلہ ، فاضلہ ، حلیم الطبع ، خلیق، کشادہ دِل ، سیر چشم اور صبر وتحمل کی پیکر تھیں ۔آپ نے عفوودرگزر،مظلوموں کی مدد واعانت ،صلہ رحمی اور صدقات وخیرات کی دولت سے بھی وافر حصہ پایا تھا ۔صحیح بخاری میں ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ’’ عمدہ اورمزے دار کھانا تیار کرنے میں سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر میں نے اور عورت کو نہیں دیکھا‘‘اور سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ جب رسول کریم ﷺ دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے وہاں ہوتے توسیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا لذیذ کھانا تیار کرکے بطور تحفہ بھیجا کرتی تھیں ۔
اللہ تعالیٰ کی عظمت وبزرگی اور بڑائی وکبریائی کا تصور آپ کے گوشۂ خیال میں ہروقت موجود رہتا ،آپ کثرت سے تلاوت کیا کرتی تھیں ،بسااوقات آپ کے دِل پر خشیت الہٰی کا ایسا اثر ہوتا تھا کہ آپ زاروقطار رونا شروع کردیتی تھیں۔حافظ ابن کثیر ، ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی صفت ِ زہد وتقویٰ کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا زُہد وتقوی، عبادت وبندگی اور صدقات وخیرات میں عورتوں کے درمیان سرداری کا مقام رکھتی تھیں ‘‘۔
سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی طرح علمی خصوصیات کا بھی مخزن تھیں ۔ قدرت نے آپ کو ذہانت وفطانت اور نکتہ سنجی ومعاملہ فہمی کے عجیب وغریب جوہر سے نوازا تھا۔مدینہ منورہ کی خواتین تو مسائل کی توضیح وتشریح کے لیے آپ کی خدمت میںآتی ہی تھیں ،ساتھ ہی باہر سے آنے والے وفود میں موجود خواتین بھی آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر مسائل دریافت کیا کرتی تھیں۔کوفہ کی خواتین تو اکثر آپ سے مسائل دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوا کرتیں۔
سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے دس احادیث روایت کیں ہیں ،آپ سے احادیث روایت کرنے والوں میں شہزادۂ امام عالی مقام سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام اور دیگر جلیل القدر تابعین شخصیات کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔
زمانے کو اپنے علم وتقوی اور زہد وعبادت کے نور سے جگمگاتے ہوئے بالآخر رمضان المبارک کے مہینے میں بقول صحیح 50ہجری کو آپ نے اِس جہانِ فانی سے عالم بقا کی طرف سفر فرمایا۔جنت البقیع شریف میں آرام فرما ہوئیں ۔اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہا کی تربیت مبارکہ پر کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے ۔
ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہاکی حیاتِ مقدسہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ حق طلبی کا جوش اور سچا راستہ پانے کی تمنا ہو تو قدرت خود راستے ہموار کرتی ہے اور حق کے راستے پر قائم رہنے کے لیے نصرتِ غیبی اور تائید ایزدی شامل حال ہوتی ہے ۔ یہی وہ سبق ہے جو اس وقت امت مسلمہ کے مردوخواتین کو سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے تذکار مبارکہ پڑھ کر یاد رکھنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ پوری امت مسلمہ کو سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی مبارک زندگی پڑھنے اورپڑھ کر اُسے برتنے اور عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الکریم الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
( مصادر: السیرۃ النبویہ ، طبقات ابن سعدودیگر کتب احادیث )