ام المؤمنین ،صدیقۂ کائنات
سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا
خواتین عالم میں ازواجِ مطہرات سلام اللہ علیہن اجمعین، مسلمان عورتوں کی نسبت شرف واعزاز اور احترام و عزت میں از حد اعلی و اکرم ہیں۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں ہونے کی وجہ سے ان کے آداب و احترام اور پاس و لحاظ کو امت پر لازم قرار دیتے ہوئے انھیں ’’امہات المؤمنین ‘‘کے خطاب سے سرفراز فرمایا اور باقاعدہ ان کے رہن سہن اور معاملاتِ زندگی پر قرآنی آیات کا نزول فرمایا۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن میں وہ منفرد شخصیت ہیں کہ صرف ان کی عصمت و عفتِ عظیمہ کو بیان کرنے لیے باقاعدہ دس آیاتِ قرآنیہ نازل ہوئیں۔
مجسمۂ علم و ہدی پیکر صدق و صفا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فہم وفراست ذہانت و فطانت میں اتنے ارفع واعلی مقام پر فائز تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری وصال باکمال کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کبھی بھی دین میں کوئی مشکل پیش آئی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہی اس کا حل پایا۔ آپ کو فہم وفراست، علمی جلالت وفقاہت اور معرفت شریعت کی وجہ سے حضور نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر شرفِ تفوق حاصل تھا۔
آپ کی ولادت با سعادت بعثت نبوی کے پانچویں سال ماہ شوال مطابق ماہ جولائی 614ء کو مکہ مکرمہ میں کاشانۂ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میں ہوئی۔امیر المؤمنین سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کا کاشانہ وہ برج سعادت تھا جہاں خورشیداسلام کی شعاعیں سب سے پہلے جلوہ فگن ہوئیں اسی بنا پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والدین کو پہچانا،مسلمان پایا۔آپ کے والد مکرم کا نام خلیفہ ٔ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور والدہ محترمہ سیدہ ام رومان زینب بنت عامر رضی اللہ عنہا ہیں۔ آپ کا خاندانی تعلق اپنے والد ِمحترم کی طرف سے قبیلہ قریش کی شاخ تیم اور والدہ ماجدہ کی طرف سے قریش کی شاخ کنانہ سے ہے۔آپ کا نسب والد ِ گرامی کی طرف سے آٹھویں پشت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب ِمبارک میں آٹھویں جد مکرم حضرت مرہ بن کعب تک اور والدہ ماجدہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیارہویں جد حضرت مالک بن کنانہ سے ملتا ہے ۔
آپ کی کنیت اُمِ عبد اللہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں کنیت شرافت کا نشان تھا اور چونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی اولاد نہ تھی اِس لیے کنیت بھی نہ تھی۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرنے لگیں کہ اور خواتین نے تو اپنی اپنی کنیت رکھ لی میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ فرمایا:اپنے بھانجے عبد اللہ کے نام پر(جو کہ آپ کی بہن سیدہ اسماء بنت ابی بکر اورسیدنازبیر ابن عوام رضی اللہ عنہما کے بیٹے تھے)اپنی کنیت ’’ام عبداللہ ‘‘رکھ لو ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جس گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں وہ نہ صرف نورِ اسلام سے منور تھا بلکہ اشاعت ِ اسلام وحفاظت ِ اسلام کا ایک مرکز تھا ۔چناںچہ آپ خود فرماتی ہیں کہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپ روزانہ صبح وشام ہمارے مکان پر رونق افروز ہوا کرتے تھے ‘‘ جس ہستی کا بچپن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم المرتبت باپ کے زیر سایہ بسر ہوا وہ ایام طفولیت ہی میں سب بچوں سے ممتاز نظر آنے لگیں ۔خالق کائنات نے آپ کو حافظہ اتنا قوی عطا فرمایا کہ بچپن کے ایام کی تمام باتیں یاد تھیں۔
اعلان نبوت کے دسویں سال 10رمضان المبارک کو جب سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کا وصال باکمال ہوا اور ان کی چند دن پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شفیق چچاجان جناب ابوطالب بھی سفر آخرت فرماگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ان دو شفیق ومہربان ہستیوں کی جدائی میں بہت رنجیدہ ومغموم رہنے لگے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب ِ مطہر میں سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی جو قدر ومنزلت تھی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جانتے تھے اِس وجہ سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی افسردگی کی وجہ سے بھی بخوبی واقف تھے چناں چہ ایک دن جلیل القدر صحابی سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا ، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لے کر یار غار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا ہاتھ مانگنے تشریف لائیں۔اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رائے مبارک سے سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھی آپ نکاح کا پیغام لے کر گئیں ۔چونکہ یہ نکاح مشیت الہٰی میں مقدر ہو چکا تھا اس لئے دونوں طرف کے اہل خانہ رضامند ہوگئے۔ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مکہ مکرمہ میں ہجرت سے 3 سال پہلے ماہِ شوال کو ہوا جبکہ رخصتی تین سال کے بعد شوال ہی کے مہینے میں ہجرت کے بعد ہوئی۔اس بے مثال وبے نظیر نکاح پاک کا مہر 500 درہم تھا۔اس وقت عرب کے دستور کے مطابق اس مہینے میں شادی بیاہ کو معیوب بلکہ نحوست قرار دیا جاتا تھا جو کمزور عقیدے کی بنیاد پر تھا کسی زمانے میں شوال میں طاعون کی وبا پھیلی تھی تاریخ میں اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ نکاح ماہِ شوال میں منعقد کر کے عرب کے اس جاہلانہ تصور کی دھجیاں بکھیر دیں یہی نہیں بلکہ رخصتی بھی ماہ شوال میں کر کے اسلام کے نظریات کو مزید استحکام بخشا۔
امت مسلمہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے کرم اور شفقت کے زیر بار ہے کہ انھوں نے ہمارے آقا امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حقیقی معنی میں اپنا تن من دھن نچھاور کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکون واطمینان کی ایک ایسی گھریلو فضا مہیاکی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بفضل اللہ ہمت واستقلال کا کوہِ گراں بن کر منصب نبوت کو نبھایا ، حتی کہ کفر ،شکست کھا کر اوندھے منہ گر گیا ، حق کا بول بالا ہوگیا اور دین اسلام اسلام کو غلبہ و فتح نصیب ہوئی لیکن یہ امت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بھی احسان مند ہے جنھوں نے نبوی علم وحکمت کو پوری صحت ودیانت کے ساتھ من وعن اپنے بچوں کو منتقل کردیاہے ۔وہ مومنوں کی صرف ماں ہی نہیں اُن کی ایک فرض شناس معلمہ بھی تھیں ،علم نبوی کے جو چراغ انھوں نے روشن کیے وہ غیرفانی اور بے مثال ہیں۔ان چراغوں کی روشنی کی چمک دمک اورابھرتی پھیلتی کرنیں امت کی راہوں کو ہمیشہ منورکرتی رہیںگی۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب ترین رفیقہ حیات تھیں۔ وہ حسین و جمیل ہی نہیں بلکہ نہایت ذہین، عقل مند، معاملہ فہم، دور رس نگاہ کی حامل تھیں۔ تفسیر، علم حدیث فقہ و قیاس، عقائد اور خواتین کے بارے میں خصوصی علوم کی حامل تھیں۔ آپ نہایت عبادت گزار اور وفا شعار خاتون تھیں سخت گرمی میں بھی روزے رکھا کرتی تھیں۔ خادمہ کی موجودگی میں بھی آٹا خود پیستیں، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ طعام بنا کر پیش کرتیں، سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر بچھاتیں،وقت نماز وضو کے لیے پانی اور مسواک مہیا کرتی تھیں۔ بیوی کا سب سے بڑا جوہر شوہر کی فرمانبرداری ہوتا ہے جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ آپ ہروقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جان نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتی تھیں ، آپ رضی اللہ عنہا کو ہرگز یہ گوارا نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی ادنی تکلیف پہنچے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کم وبیش نو برس تک خلوت وجلوت میں رہیں۔
آپ کے متعلق متعدد اکابر محدثین و فقہاء کرام کا کہنا ہے کہ معانی قرآن، احکام حلال و حرام، اشعار عرب اور علم الانساب میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکا کوئی ثانی نہ تھا۔ خواتین میں سب سے زیادہ احادیث آپ نے روایت فرمائیں۔آپ کے شاگردوں کی تعداددو ہزار سے زائد ہے جن میں مرد و عورت، صحابی و تابعی، غلام و آزاد، عزیز و بیگانہ ہر صنف کے افراد شامل ہیں۔ علم و فضل کا بحر بیکراں ہونے کے ساتھ ساتھ آپ خوش بیاں بھی تھیں۔فنِ شاعری کے ساتھ اس قدر شغف تھا کہ ہراہم سے اہم واقعات وخصائص کو بہترین اشعار میں بیان کردیتیں۔ آپ نے متعدد کلام ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں کہے جن میں سے دو اشعارتو شہرہ آفاق ہوئے
لنا شمسٌ وللآفاق شمسٌ
وشمسی خیرُ من شمسِ السماء ِ
فانّ الشمس تطلعُ بعد فجرٍ
وشمسی طالعٌ بعد العشاء
(ایک ہمارا سورج ہے اور ایک آسمانوں کا سورج ہے اور میرا سورج آسمان کے سورج سے کہیں افضل ہے کہ آسمان کا سورج فجر کے بعد نکلتا ہے اور میرا سورج عشاء کے بعد طلوع ہوتا ہے)
آپ نے متعدد حج فرمائے اورغزوات ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قابل قدر کارنامے سرانجام دئیے ۔
58 ھ رمضان المبارک میں آپ علیل ہوگئیں اور اسی علالت میں 17رمضان المبارک کو آپ کا وصال باکمال ہوا۔ آپ کی نمازِ جنازہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔سیدہ امام احمدر ضا خان علیہ الرحمۃ ، آپ رضی اللہ عنہا کی بارگاہ میں سلام عقیدت پیش کرتے ہیں :
بنت صدیق آرام جان نبی
اس حریم برأت پہ لاکھوں سلام
یعنی ہے سورہ نور جن کی گواہ
ان کی پر نور صورت پہ لاکھوں سلام