سید الاسخیاء، راحت ِ قلب ِ مصطفی ﷺ
سیدنا امام حسن علیہ السلام‘ سردارِ امت
گلستانِ رسالت کے گلِ سرسبد، امام المسلمین ، امیر المؤمنین سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ‘ جو سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے فرزند اکبر اور جانشین ِ برحق ہیں ۔خانوادۂ رسول ﷺ کی تاریخ مجید اِن کے تذکار ِ مبارکہ کے بغیر ادھوری ہے۔ اِن کا اُسوہ اور کرداروخصال ِ خوش جمال امت کے لیے جیتا جاگتا نمونہ ہے ۔ سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شخصیت تاریخ اسلام کا ایسا جگمگاتا باب ہے جس سے عالم انسانیت کا استفادہ ناگزیر اور رہنمائی کا حصول عصرحاضر کی ضرورت بن چکا ہے ۔اِ ن کی جرأت آمیز بصیرت ہی تھی کہ امت کی شکستہ صفوں کی دراڑوں کو ختم کرکے انھیں شیر وشکر کردیا۔رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبانِ اطہر سے آپ علیہ السلام کو امت کے منصب ’’ سید‘‘ پر فائز کیا ۔ ذیل میں چند ارشادات اور واقعات ملاحظہ فرمائیں ۔
ایک دن سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ‘مجلس حدیث سجائے تشریف فرماتھے ‘اپنے عہد کے جلیل القدر تابعین عظام آپ سے علوم حدیث اور فرامین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موتی اخذ کررہے تھے ،اتنے میں آپ کی مجلس حدیث سے جگربند ِ مصطفی ، ریحانِ دِل مرتضیٰ ، قرۃ العین ِ زہرا ابومحمد سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا گزر ہوا ، آپ نے تمام شرکائِ مجلس کو سلام کیا ،سب نے سلام کا جواب دیا ،جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن ابوسعید مقبری رحمۃ اللہ علیہ ( اس واقعہ کے راوی)فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ( فرامین رسول کی تعلیم وروایت میں اس قدر مستغرق تھے کہ آپ )کو شہزادۂ رسول سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے تشریف فرما ہونے کا علم نہ ہوسکا ۔جب مجلس حدیث کا دورانیہ مکمل ہوا تو ہم نے عرض کیا کہ ’’ حسن بن علی ‘ تشریف لائے تھے ، جنھوں نے ہم سے سلام کیا ہے ۔ ‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فوراً کھڑے ہوئے اور جہاں امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام موجود تھے وہیں جا کے اُن سے ملے اور کہا :’’وعلیک السلام یاسیدی‘‘ (اے میرے سردار) ۔راوی کہتے ہیں میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : حضور! آپ انھیں ’ یاسیدی‘ کہتے ہیں ؟ اِس پر انھوں نے فرمایا : ’’ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ’’اِنَّہُ لَسَیِّدٌ‘‘بلاشبہ آپ سردار ہیں ۔اس واقعہ کو مستدرک میں امام حاکم نے روایت کیا ہے ۔
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ سیّدناابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول کریمﷺ منبر پر جلوہ گر تھے اور(امام) حسن بن علی(علیہما السلام) آپﷺ کے پہلونشیں تھے۔ نبی کریم ﷺ کبھی لوگوں کی طرف توجہ کرتے اورکبھی (امام) حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی طرف نظر فرماتے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میرا یہ بیٹا سیِّد(یعنی سردار) ہے، اللہ تعالیٰ اس کی بدولت مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میںصلح فرمائے گا۔‘‘
’معجم الکبیر ‘میں امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ ابن حبان علیہ الرحمۃ نے’ صحیح ابن حبان ‘اور’ مجمع الزوائد ‘میں علامہ ہیثمی علیہ الرحمۃ نقل کرتے ہیں کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ جو چاہتاہو کہ جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے تو اُسے ’ سیدنا حسن بن علی ‘ کو دیکھنا چاہیے ۔‘‘
محققین علوم حدیث کے نزدیک جنت میں سیدنا امام حسن مجتبیٰ اور سیدنا امام حسین علیہما السلام کے سردار ہونے کی خبر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد سے منقول ہے ایسا اِس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے اصحاب کی بڑی بڑی محافل اور اجتماعات میں اپنے شہزادوں کی سرداری کا بارہا ذکر کیا ہے ۔
حالات اور مرورِ ایام نے ثابت کردیا کہ سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام میں سرداری کی صفت بدرجہ ٔ اتم موجود تھی ، آپ نے اپنے نانا جان امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان اور پیشین گوئی کا مصداق بن کر صلح کی اور سروں کی حکومت بجائے کی قلوب پر حکومت کو ترجیح دی اور امت کوافتراق وانتشار سے بچا کر متحد رکھا تو آپ کی سرداری کی صفت اپنی انتہا کو پہنچ گئی ۔سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی سیرت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقی سرداری ظلم وزیادتی ، خوں ریزی اور مال وعزت تباہ کرکے نہیں ملتی بلکہ سرداری مال وعزت کو محفوظ کرکے ، بغض وعداوت کو دور کرکے حاصل ہوتی ہے ۔
سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے انتہائی نازک موقع پر نہایت جرأت مندانہ فیصلہ کرکے اپنا ’’ سردارِ امت ‘‘ ہونے کو برملا اعلان کیا ، شاید کوئی سمجھے جائے کہ اُس وقت آپ عسکری حوالے سے کسی کم زور حیثیت میں تھے‘ قطعاً نہیں ،تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں پہاڑوں جیسے جنگجو دستوں کی قیادت انھیں حاصل تھی اور چالیس ہزار سے زیادہ افراد پر مشتمل لشکرنے اِن کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی ہوئی تھی ، یہ فیصلہ آپ کی دور اندیشی اور سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مستقبل بین ارشاد اَنور کی دمکتی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
تحریر: مفتی محمد زمان سعیدی رضوی