• اہل بیت اطہار علیہم السلام

چچی جان رسول اللہ ﷺ سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا

رسول کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چچی جان ،والدۂ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ 
سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا
آپ اپنی خاندانی رفعت ، نسبی شرافت اور پاکیزگی ِ سیرت کے ساتھ اسلام ، بیعت اور ہجرت میں بھی سبقت کا شرف رکھتی ہیں 

 

سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا حضور اکرم خاتم النبیین ﷺ کی چچی جان اور ہاشمی خاندان کا عظیم سرمایہ تھیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب رسول اللہ ﷺ سے جناب ہاشم تک پہنچ کر مل جاتا ہے۔آپ کے والد’’ اسد بن ہاشم‘‘ رسول اللہ ﷺ کے دادا ’’عبدالمطلب بن ہاشم‘‘ کے سوتیلے بھائی تھے۔ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا نے قریش کے معزز ترین خاندان ،بنی ہاشم میں آنکھ کھولی اورنہایت نازو نعم کے ساتھ تربیت پائی۔ آپ بچپن سے ہی اعلیٰ اوصاف کی مالکہ تھیں۔ گوہر شناس عقابی نگاہوں کے مالک جناب عبدالمطلب نے انھیں اپنی بہو بنانے کے لیے منتخب کرلیا اور اپنے فرزند عبدمناف (جناب ابو طالب) سے ان کانکاح کردیا۔جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہا کو چار بیٹے جن کے نام ’’طالب (جن کی نسبت سے جناب ابو طالب علیہ السلام کی کنیت’’ابوطالب‘‘مشہور ہوئی اور اس قدر مشہور ہوئی کہ اصل نام متروک ہو گیا) عقیل رضی اللہ عنہ،جعفر رضی اللہ عنہ اور علی کرم اللہ وجہہ الکریم‘‘ تھے،آخر ی تین نام تاریخ اسلام میں قیامت تک عقیدت واحترام کے ساتھ یاد رکھے جائیں گے اور تین بیٹیاں جن کے نام امّ ہانی رضی اللہ عنہا (اصل نام با اختلاف روایت فاختہ، ہند یا فاطمہ) ’جمانہ ‘اور’ ریطہ ‘تھے ۔
حضور اکرم ﷺ اور سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کے باہم متعدد رشتے تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی شفیق چچی جان اور سمدھن بھی تھیں کہ آپ ﷺ کی لاڈلی شہزادی سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ساس تھیں۔ سیدناعبدالمطلب کی بھتیجی ہونے کے ناطے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدماجدسیدنا عبداللہ علیہ السلام کی چچا زاد بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی کا رشتہ بھی بنتا ہے ۔
اعلان نبوت کے بعد رحمت عالمین ﷺ نے دعوت حق کا آغاز فرمایا تو بنو ہاشم نے آپ ﷺ کا ڈٹ کر ساتھ دیا۔آپ کے فرزند ِ ارجمند مولاعلی کرم اللہ وجہہ الکریم تو دعوت حق پر لبیک کہنے والے اوّلین نوجوان تھے۔خود آپ رضی اللہ عنہا بھی ابتداءِ دعوت میں سعادت قبولِ اسلام سے سرفراز ہو گئی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد ان کے دوسرے فرزند سیدناجعفر رضی اللہ عنہ بھی پرستاران حق میں داخل ہو گئے۔ علامہ ابن اثیر نے ’’اسدالغابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے ساتھ مشغول عبادت تھے کہ آپ کے چچا جان نے انھیں دیکھا تو سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’بیٹاتم بھی اپنے ابن عم کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔‘‘سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں جانب کھڑے ہو گئے۔ عبادت میں انھیں ایسا لطف آیا کہ حضورﷺ کے دارِ ارقم میں پناہ گزین ہونے سے پہلے ہی شرف اسلام سے بہرہ ور ہو گئے۔
آپ رضی اللہ عنہا کا پورا خاندان رحمت عالمین ﷺ سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ سیدنا عبدالمطلب کی وفات کے بعد آپ اور آپ کے شوہر نامدار نے جس خلوص کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی خدمت سرانجام دیں اور نہایت نامساعد حالات میں بھی آپ ﷺ کی حفاظت و حمایت میں جان کی بازی لگا دی تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
جب رسول اللہ ﷺ کی والدۂ ماجدہ سیدہ آمنہ سلام اللہ علیہاکا وصال ہوگیا توآپ ﷺ کے دادا جناب عبدالمطلب نے آپ ﷺ کی سرپرستی فرمائی آپ ﷺ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر چاہتے تھے۔ ہر وقت اپنے پاس رکھتے، قریب بٹھاتے تھے۔ مگر شفیق دادا کی محبت آپ ﷺ کو زیادہ دیر تک حاصل نہ رہی ۔اِن کے وصال باکمال کے بعد آپ ﷺ کے شفیق چچاجان جناب ابو طالب نے کفالت وتربیت کا حق ادا کیا ۔
 سیدنا عبدالمطلب کے انتقال کے بعد جناب ابوطالب نے آپ ﷺ کو اپنی کفالت میں لے لیا۔جتنا وقت آپﷺ نے اپنے شفیق چچا کے ساتھ گزارا حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہانے ایک ماں کی طرح آپ ﷺ کا خیال رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کی اورہر ضرورت کا خیال رکھا۔ آپ ﷺ ان کے وصال کے بعد اکثر دعا کرتے ہوئے فرماتے تھے:’’اے اللہ !میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے۔‘‘
چچاجان کے رخصت فرماجانے کے بعد آپ ﷺ کی سرپرستی کی ذمہ داری حضرت فاطمہ بنت اسدرضی اللہ عنہا نے اٹھالی اور ایک عورت ہونے کی حیثیت سے جو کچھ بن پایا آپ نے کیا۔ وہ آپ ﷺ کو اپنے فرزندوں سے زیادہ چاہتی تھیں۔
اعلانِ نبوت کے بعد جب اہل حق پر مشرکین قریش کے مظالم انتہاکو پہنچ گئے تو سرورِ عالم ﷺ نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی، سنہ 5نبوی اور سنہ 6 نبوی میں مسلمانوں کے دو قافلے یکے بعد دیگرے ارض مکہ مکرمہ کو الوداع کہہ کر حبشہ چلے گئے۔ ان مہاجرین میں حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کے فرزندارجمند سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ان کے ساتھ ان کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عُمیس رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ عظیم سیرت نگارابن اسحاق رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ پہلی ہجرت حبشہ کے شرکا میں سے تھے لیکن موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں لکھا ہے کہ وہ دوسری ہجرت کے مہاجرین میں سے تھے۔ بہر صورت حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ نے بڑے صبر اور حوصلے سے اپنے فرزند اور بہو کی جدائی برداشت کی۔
اعلانِ نبوت کے ساتویں سال میں مشرکین قریش نے فیصلہ کیا کہ جب تک بنو ہاشم اور بنو مطلب،(سیدنا) محمد( ﷺ )کو ہمارے حوالے نہیں کریںگے کوئی شخص ان سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھے گا۔ نہ ان کے پاس کوئی چیز فروخت کی جائے گی اور نہ ان سے رشتہ ناطہ قائم کیا جائے گا۔ اس فیصلے کو معرض تحریر میں لا کر ہر قبیلے کے نمائندے نے تصدیقی علامات ثبت کیں اور اسے در کعبہ پر آویزاں کر دیا۔ حضور امام الانبیاء ﷺ کے چچاجان کو اس معاہدے کا علم ہوا تو وہ جناب ہاشم اور ان کے بھائی مطلب کی تمام اولاد کو ساتھ لے کر شعب ابی طالب میں پناہ گزین ہو گئے۔ مسلسل تین برس تک بہت سخت مصائب و آلام جھیلتے رہے۔ ان محصورین میں حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ اس دورِ ابتلا میں انھوں نے اپنے کنبے کے ساتھ کمال درجے کی ہمت اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ 
جب عام مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم ملا تو حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا بھی ہجرت کرکے مدینہ طیبہ چلی گئی۔ لیکن اپنے چھوٹے فرزند مولاعلی کرم اللہ وجہہ الکریم کوآپ ﷺ کے ساتھ چھوڑ گئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہجرت کے موقع پر آپ کے لخت جگر مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے بستر پر آپ کو سلایا اور ہجرت کے لیے روانہ ہوئے۔ہجرت کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مکان پر تشریف لے گئے اور رات ہونے تک وہیں رہے تاکہ دشمن کو کسی معاملے میں شک نہ ہو رات کو اپنے طے شدہ وقت کے مطابق وہ بارہ افراد جنھیں کفار نے مامور کیا تھا ،پہنچے لیکن ان لوگوں کے آنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو اپنے بستر پر اپنی سبز چادر اوڑھا کر لٹادیا تھا اس لیے دشمن باہر سے تانک جھانک کر جب بھی دیکھتے ،یہی سمجھتے رہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بستر پر سورہے ہیں وہ لوگ رات بھر باہر بیٹھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باہر نکلنے کا انتظار کرتے رہے تاکہ صبح سویرے جب آپ ﷺ باہر نکلیں گے یک بارگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کردیں۔مگر ان کامنصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔
ہجرت نبوی کے دو سال بعد مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا نکاح حضور نبی کریم ﷺ کی لاڈلی شہزادی سیدہ فاطمۃالزہراسلام اللہ علیہا سے ہوگیا اور یوں ایک گھر میں ایک ساس اور ایک بہوکے روپ میں دو فاطمہ جمع ہوگئیں ۔
شیر خدا سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بہت بڑی عمدہ اور نفیس چادر مجھے دی اور ارشاد فرمایا کہ اسے فواطم میں برابر تقسیم کردو۔ فواطم فاطمہ کی جمع ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھرانے میں چار خواتین، جن کا نام فاطمہ تھا ، جمع تھیں، فاطمہ بنت اسدرضی اللہ عنہا،سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا، فاطمہ بنت سیدناامیر حمزہ رضی اللہ عنہما، اورفاطمہ بنت شیبہ،سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ میں نے تعمیل ارشاد کرتے ہوئے چادر کے چار حصے کیے اور چاروں خواتین کو ایک ایک حصہ دے دیا۔
حضور رحمت عالمین ﷺ کو حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا سے بڑی محبت تھی۔ آپ ﷺ اکثر ان سے ملنے کے لیے تشریف لے جاتے اور ان کے گھر آرام فرماتے۔ حضورﷺ نے کئی بار ان کی شفقت، شرافت اور خصائل حمیدہ کی تحسین فرمائی۔ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا نے ہجرت کے چند سال بعد حضور ﷺ کی حیات مبارک ہی میں وفات پائی۔ حضورﷺ نے ان کی جدائی کو شدت سے محسوس کیا،اپنی قمیض مبارک اتار کر کفن بنانے کا حکم دیا اور تدفین سے پہلے آپ ﷺ اِن کی قبر میں لیٹ گئے۔ لوگوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو فرمایا:’’میرے چچاجان کے بعد ان سے زیادہ میرے ساتھ کسی نے مہربانی نہیں کی۔ میں نے اپنی قمیض ان کو اس لئے پہنائی کہ جنت میں انھیں حُلّہ ملے اور قبر میں اس لئے لیٹ گیا تاکہ قبر کی سختی سے محفوظ ہوں ۔‘‘
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی والدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہماکا وصال باکمال ہوا تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور ان کے سر کی طرف بیٹھ گئے۔ فرمایا:’ ’اے میری ماں! اللہ تجھ پر رحم کرے، میری (حقیقی) ماں کے بعد آپ میری ماں تھیں، خود بھوکی رہتیں اور مجھے خوب کھلاتی، خود کپڑے (چادر) کے بغیر سوتی اور مجھے کپڑا پہناتیں، مجھے بہترین کھلاتی تھیں، آپ کا مقصد اس (عمل) سے اللہ کی رضامندی اور آخرت کاگھر تھا۔‘‘پھر آپ ﷺ نے حکم فرمایا کہ انھیں تین، تین دفعہ غسل دیا جائے، پھر جب اس پانی کا وقت آیا جس میں کافور (ملائی جاتی) ہے تو رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے ان پر پانی بہایا پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی قمیص اتار کر انھیں پہنا دی اور اسی پر انھیں کفن دیا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسامہ بن زید، ابو ایوب الانصاری، عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہم اور ایک حبش کے غلام کو بلایا تاکہ قبر تیار کریں پھر انھوں نے قبر کھودی، جب لحد تک پہنچے تو رسول اللہﷺ نے اسے اپنے ہاتھ سے کھودا اور اپنے ہاتھ سے مٹی باہر نکالی پھر جب فارغ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ اس قبر میں داخل ہوکر لیٹ گئے اور فرمایا: ’’اللہ ہی زندہ کرتا اور وہی ہے جو مارتا ہے اور اسے کبھی موت نہیںآئے گی۔ اے اللہ! میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور ان پرمہربانی فرما، اپنے نبی اور مجھ سے پہلے نبیوں کے وسیلے سے ان کی قبر کو وسیع کردے، بے شک تو ارحم الراحمین ہے۔‘‘ پھر آپ نے ان پرچار تکبیریں کہیں، پھر آپ ﷺ، سیدنا عباس اور سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہما (تینوں) نے انھیں قبر میں اتار دیا۔
آپ رضی اللہ عنہا کے سارے بچے ناموس رسالت ﷺ کے محافظ تھے۔ ایک ماں کے لیے سکون قلب کی اس سے بڑھ کر کیا بات ہوگی اور جس خاتون کو سید المرسلین ﷺ کی قمیص مبارک کا کفن اورآخری آرام گاہ کو جسم مبارک کا لمس نصیب ہوا ہو ان کے مقام و مرتبے کا کیا کہنا ؟ بے شک اللہ اور اللہ کا رسول ﷺ ان سے راضی اور وہ اللہ کی رضا پر مطمئن تھیں۔
مآخذ:
طبرانی، معجم الاوسط،ابونعم، حلیۃ الاولیا،، مجمع الزوائد،اسد الغابہ،الاصابہ،الاستیعاب
تحریر: مفتی محمد زمان سعیدی رضوی