• اہل بیت اطہار علیہم السلام

شہزادی رسول ﷺ سیدہ رقیہ سلام اللہ علیہا

شہزادیٔ مصطفی کریم ﷺ سیدہ رقیہ سلام اللہ علیھا

اللہ تبارک وتعالی دین اسلام کے ذریعے سسکتی انسانیت کو جہاں نئی جلا بخشی وہیں عورت کو اس کا مقام و مرتبہ بھی دلوایا، اور اپنے حبیب ﷺ کو بیٹیوں سے نواز کر یہ بات واضح فرمادی کہ بیٹیاں مثل رحمت ہوتی ہیں انہیں بوجھ سمجھ کر دفنانا چاہے وہ حقیقتا ہو یا مجازا قطعا درست نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی چار صاحبزادیاں تھیں اور چاروں صاحبزادیاں ملیکۃ العرب سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنھا سے تھیں۔ اگر غور و فکر سے کام لیا جائے تو رہتی دنیا تک آنے والی خواتین کے لیے چاروں صاحبزادیوں کی سیرت باعث نجات اور ان کا کردار باعث رہنمائی ہے۔
یہاں جن صاحبزادی کی بات کی جارہی ہے وہ سیدہ رقیہ  سلام اللہ علیہا ہیں۔ یہ پھول گلشن رسول ﷺ میں اس وقت کِھلا جب عام الفیل کو تینتیس برس گزر چکے تھے یعنی اعلان نبوت سے سات سال قبل آپ کی ولادت ہوئی۔  اہل سیر کے اصح قول کے مطابق یہ دوسری صاحب زادی تھیں اور سیدہ زینب سلام اللہ علیہا سے تین سال چھوٹی تھیں۔
سیدہ رقیہ سلام اللہ علیہا عہد نبوت سے قبل عتیبہ بن ابو لہب کے نکاح میں تھیں، لیکن ابھی رخصتی کے معاملات طے نہیں پائے تھے۔ کچھ اہل سیر نے لکھا ہے کہ اعلان نبوت کے بعد جبکہ مدارج النبوت میں آتا ہے کہ جب سورہ لہب نازل ہوئی تو ابولہب نے اپنے بیٹوں کو رسول اللہ ﷺ کی صاحب زادیوں کو خود سے جدا کرنے کا حکم دیا، جسے ابو لہب کے دونوں بیٹوں نے مانا اور علیحدہ ہوگئے۔ حضورﷺ نے  سیدہ رقیہ سلام اللہ علیہا کا دوسرا نکاح سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہ سے کردیا۔ خصائص الکبری میں یہ واقعہ بزبان سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن میں صحن کعبہ سے اٹھ کر اپنے گھر گیا تو وہاں پہ میری خالہ سعدی مو جود تھیں جو کتب سماویہ کی عالمہ تھیں، انہوں نے مجھے دیکھتے ہی شعر پڑ ھنے شروع کردیے: ’’اے عثمان! آپ کے لیے جمال ہے اور آپ کے لیے عزت وشان ہے اور یہ نبی اکرم ﷺ وہ ذات ہیں جن کے پاس واضح دلیل (یعنی قرآن) ہے،ان پر قرآن کا نزول ہوا ہے اور ادیان میں سب سے حق دین، دین اسلام کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) مبعوث فرمائے گئے ہیں اور ساتھ حضرت سعدی یہ کہتی ہیں:'' اے عثمان! تجھے مبارک ہو تجھے تین بار مبارک ہو، پھر تین بار، پھر تین بار، پھر تین بار پھر ایک مر تبہ یعنی کل دس مرتبہ سلام ہو، آپ کو بھلائی حاصل ہو اور شر سے محفو ظ رہو،اللہ تعالی کی قسم تم نے ایک نہایت ہی پاک دامن عزت مآب عفت و پا کیزہ ہستی سے نکاح کیا،وہ بھی غیر شادی شدہ ہے تم بھی کنوارے ہو،تم نے ایک بہت عظیم المرتبت شخصیت کی بیٹی سے نکاح کیا۔‘‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ یہ سن کر حیران ہوئے اور عرض کیا:''خالہ جان ذرا واضح بتاؤ کیا بات ہے؟'' تو آپ کی خالہ جان نے فر مایا:''بے شک! محمد بن عبداللہ ،اللہ تعالی کے رسول ہیں۔اللہ تعالی کی طرف سے قرآن کریم لے کر آئے ہیں اور اللہ تعالی کی طرف بلاتے ہیں ان کا چراغ ہی در اصل چراغ ہے، ان کا دین ذریعہ فلاح ہے۔ اس وقت شوروغل کوئی نفع نہ دیں گا جب قتال و جدال شروع ہو جائے گا اور تلواریں سونت لی جا ئیں گی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جب اپنی خالہ کی باتیں سنی تو آپ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے مشورہ کیا ان کی ایمان افروز باتیں آپ کے دل میں گھر کر گئی اور آپ بے اختیار نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں تشریف لے گئے اور آپ ﷺ کے دست مبارک پر بیعت ہو گئے۔''
جب قریش مکہ نے ظلم کی انتہا کردی، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو ہجرت حبشہ کا حکم فرمایا چناں چہ پانچ نبوی کو سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنھا مع سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ حبشہ کی جانب روانہ ہوئیں،یہ ان دونوں کی پہلی ہجرت تھی۔ اس عمل کی تحسین فرماتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد جس نے سب سے پہلے ہجرت کی وہ حضرت عثمان غنی ر ضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ اسد الغابہ میں ہے کہ حبشہ میں قیام کے وقت اللہ تعالی نے آپ رضی اللہ تعالی عنھا کو اولاد نرینہ سے نوازا جس کا نام عبداللہ رکھا،عبداللہ کا 6 سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں انتقال ہوا۔ حضور ﷺ نے نماز جنازہ خود پڑھی سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے قبر میں اتارا۔ روایتوں سے ملتا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنھا کی مزید کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دوسری ہجرت حبشہ سے مدینہ کی جانب تھی مدارج النبوت  میں موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ان کی شان میں فرمایا:'' حضرت لوط علیہ السلام کے بعد یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے (اپنی اہلیہ سمیت) اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔''
ہجرت کے دوسرے سال غزوہ بدر رو نما ہوا۔ جب مہاجرین و انصار غزوہ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنھا کی طبیعت بگڑتی چلی گئی،۔ اہل سیر کے نزدیک آپ رضی اللہ تعالی عنھا کو خسرا کی بیماری نے آ لیا تھا، لہذا آپ کا وصال سن 2 ہجری کو مدینے میں 17 رمضان المبارک میں اس وقت ہوا جب غزوہ بدر کی فتح یابی کی خبر موصول ہوئی۔ آپ کی عمر مبارک بوقت وصال ایک روایت کے مطابق 20 سال اور ایک روایت کے مطابق 22 سال تھی۔ یہی وجہ ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اپنی باوفا رفیقہء حیات کی تیمارداری کے سبب غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے۔
سیدہ طیبہ طاہرہ سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علہا آپ  کی قبر انور کے سرہانے حضور نبی اکرم ﷺ کے پہلو میں بیٹھی رو رہی ہوتی تھیں اور آپ ﷺ اپنی چادر مبارک کے کناروں سے ان کی چشم مبارک سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو پونچھتے تھے۔
حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنھا صبر و تحمل میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کا عکس ثابت ہوئیں۔ ہجرت کے سفر کی صعبتوں کو برداشت کرتیں اور لب پر فقط انا للہ و انا الیہ راجعون تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی صاحب زادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنھا نے اپنے عمل سے بتایا کہ شوہر کی تابع داری کیسے کی جاتی ہے۔ خواتین امت کو چاہیے کہ وہ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنھا کی سیرت کو اپناتے ہوئے اپنے معمولات کو درست سمت کی طرف موڑ دیں، یہ بات ہم پر واضح ہے کہ ہماری نجات انہی محترم ہستیوں کی پیروی میں مضمر ہے۔اللہ تبارک و تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین