ملیکۃ العرب ، پیکرایثار ووفا، خیر نساء العالمین
ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا
پاک سیرت‘نیک طینت‘ سراپا فہم وفراست‘وفا شعار، بلندکردار‘ جود وسخا کی پیکر‘سب سے پہلے پیغام حق کو قبول کرنے والی عزت مآب ہستی جنھیں اللہ تعالیٰ نے جبریل امین علیہ السلا م کے ذریعہ آسمان سے سلام بھیجا،جنھوں نے شعب ِ ابی طالب میں رسول کریم خاتم النبیین ﷺ کے ساتھ محصور رہ کر رفاقت ومحبت اور ورافتگی وایثار کا مثالی کردار پیش کیا،جنھوں نے فروغ واشاعت ِدین کے لیے اپنا سارا مال ومتاع دہلیز درِ مصطفٰی کریم ﷺ پر قربان کردیا۔جن کی قبراَنور میں امام الانبیاء ﷺ بہ نفس نفیس خود اُترے اور لحد ِاقدس کا بہ چشم خود جائزہ لیا اورا پنے مبارک ہاتھوں سے جن کے جسد اطہر کو قبر میں اُتارا،اِس قدر خوش قسمت اور قابل رشک خاتون جنھیں تاریخ میں ’سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ نے اپنی فہم وفراست‘ حکمت وتدبر‘ پاکیزہ اخلاق وسیرت‘ رحم دِلی اور غریب پروری ایسی صفات ِ عالیہ کے ایسے روشن مینار قائم کیے جن کی نورانی شعاعوں سے عالم نسوانیت قیامت تک روشنی وراہنمائی حاصل کرتا رہے گا۔
سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی ولادت باسعادت مکہ معظمہ میں عام الفیل سے پندرہ سال قبل (555ء یا556 ء میں) ہوئی، اسم گرامی ’خدیجہ‘ اور کنیت ’اُم قاسم‘اور ’ام ہند‘ معروف ہے۔ آپ کے والد ِمحترم قریش کے بہت بڑے رئیس ’خویلد‘ اور والدہ ماجدہ ’فاطمہ‘دونوں قریشی خاندان سے تھے۔والد کی طرف سے جناب قصی تک اور والدہ کی طرف سے جناب لُوی تک آپ کا شجرہ نسب،رسول کریم ﷺ کے مبارک خاندان سے جا ملتا ہے، غرضیکہ آپ اپنے دونوں رشتوں سے ارفع واعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ تذکرہ وسیرت نگاروں کے نزدیک آپ اپنے نسب ِمبارک کے اعتبار سے تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں رسول اللہ ﷺ کے سب سے زیادہ قریب تھیں۔جس گھریلو ماحول میں آپ نے پرورش پائی وہاں شرافت ونجابت‘ امانت ودیانت‘راست گوئی وایفائے عہداور احساس ذمہ داری کی حکمرانی تھی،اُس دورِجاہلیت میں بھی آپ رضی اللہ عنہا کا خاندان عصمت وعفت‘طہارت واخلاق اور نیک اطوار و عادات کی وجہ سے معزز ومکرم سمجھا جاتا تھا۔اپنی شرافت وسیادت کے باعث آپ پورے عرب میں ’سیدۃ نساء قریش‘ (قریش کی عورتوں کی سردار) کہلاتی تھیں۔( الروض الانف ، سہیلی )
آپ اپنے اوصاف ِ حمیدہ بالخصوص غریب پروری‘ صدقہ وخیرات‘جودوسخا‘ فراخ دِلی و عالی حوصلگی‘آداب واخلاق‘حلم وبردباری اور مستقل مزاجی کی بناء پر عہدجاہلیت میں بھی ’طاہرہ‘ کے لقب سے مشہور تھیں ۔( المعجم الکبیر ، طبرانی )
لغت نامہ دھخدا کے مطابق سیدہ طاہرہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا جب رسول کریم خاتم النبیین ﷺ کے عقد ِ مبارک میں آئیں تو رسول اللہ ﷺ نے اُنھیں’کبری‘کا لقب عطا فرمایا۔
آپ نے جب عالم شبا ب میں قدم رکھا تو والد محترم کی منشا سے عرب کے قبیلہ بنو اُسید کے خوب رُو نوجوان ’ہند بن نباش ‘سے نکاح کیا گیا ۔ ہند بن نباش ایک صاحب ِ ثروت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور پورے عرب میں اپنی کنیت ’’ ابوہالہ ‘‘ کے نام سے مشہور تھے ۔جناب ابوہالہ عالم جوانی میں اِس جہانِ رنگ وبُوسے رخصت ہوگئے ۔ پھر قبیلہ بنومخزوم کے ایک معزز جوان ’’ عتیق بن عائذ ‘‘ سے آپ کاعقد کیا گیا کچھ عرصہ بعد وہ بھی اس دنیا سے چل بسے تو دنیوی معاملات سے دل برداشتہ ہو کرآپ زیادہ وقت حرم کعبہ میں گزارتیں۔ جس کے باعث آپ کے مزاج مبارک میں تقدس و شرافت مزید بڑھ گئی۔ قریش کے نامور صاحب ثروت سرداروں نے آپ کو پیغام نکاح بھجوایا لیکن سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سب کو یکسر انکار کر دیا۔
آپ کے والد محترم خویلد بن اسد اعلی درجے کے تاجر تھے، جب بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچے تو انھوں نے اپنا سارا کاروبار اپنی صاحبزادی کے سپرد کردیا۔ تیس سال کی عمر میں آپ تجارت سے وابستہ ہوئیں۔ جس کی وجہ آپ حجاز مقدس میں سب سے زیادہ مالدار خاتون شمار ہوتی تھیں آپ کی تجارت کا سامان عرب سے باہر ملک شام اور یمن میں سال میں دو مرتبہ جاتا تھا۔بعض مؤرخین اور سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اکیلا سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کا سامان تجارت مکہ مکرمہ کے سارے تجارتی قافلوں کے سامان کے برابر ہوتا تھا۔
آپ میں فہم وفراست، معاملہ فہمی اور عقل ودانش تو عطیہ خداوندی تھی اِس لیے آپ نے اِس کاروبار کو احسن طریقے سے چلایاجس سے آپ کامالِ تجارت دن بدن بڑھتا ہی رہا،آپ چوں کہ خود پردہ نشیں تھیں اوراپنے عزیزوں کو معقول معاوضہ دے کر مالِ تجارت شام اور یمن کے بازاروں میں بھیجتی تھیں۔اِن تمام اُمور کی نگرانی کے لیے آپ کو ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جو فہم و فراست اور عقل مندی میں بے مثال ہواور دیانت وامانت اُس کی صفات ہوں۔اُنھیں ایام میں پورے مکہ مکرمہ میں امام الانبیاء، رسول خدا ﷺ اپنے اخلاق حسنہ، عدل وانصاف اور امانت ودیانت کے وجہ سے ’الصادق الامین‘کے القاب سے یاد کیے جاتے،تمام لوگ آپ ﷺ کے مداح تھے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچاجان کے ساتھ شام کا تجارتی سفر کرکے میدانِ تجارت میں ایک صادق و امین تاجر کی حیثیت سے اپناسکہ بٹھا چکے تھے۔
اِدھر سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی عقیدت نواز نگاہیں پہلے ہی سے ایسے فردِ مقدس کی جستجومیں تھیں کہ جن کے ساتھ شراکت ومعاونت سے اُن کی تجارت کو خوب فروغ حاصل ہو اوروافر مقدار میں نفع حاصل ہو۔اِس لیے آپ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیام بھیجا کہ اگر آپ میرامالِ تجارت،شام تک لے جایا کریں تو میں اپنا قابل اعتماد غلام میسرہ بھی خدمت گزاری کے لیے آپ کے ساتھ بھیجوں گی اور اب تک دوسروں کو جتنا معاوضہ دے کر بھیجا کرتی تھی اُن کی بہ نسبت آپ کو دوگنا نفع پیش کروں گی۔
اِدھر رسول اللہ ﷺ کو اپنے چچا جان کی وساطت سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تجارت کا احوال معلوم ہوچکا تھا اِس لیے آپ ﷺ نے اِس پیشکش کو قبول فرمالیا۔معاملہ کی تکمیل کے بعدجب سامانِ تجارت امام الانبیاء ﷺ کے حوالہ کردیا تواپنے وفادار اور زیرک غلام میسرہ کو تاکیدی حکم دیاکہ ’’میسرہ! خبردار اِن کی نافرمانی نہ کرنا اور نہ ہی ان کی کسی رائے کی مخالفت کرنا۔ ‘‘(شرف المصطفیٰ ، سبل الھدی والرشاد)
سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہاکے اِس حکم سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ نے میسرہ کو حضور سرورِکائنات ﷺ کی نگرانی کرنے کے لیے نہیںبھیجا تھا بلکہ رسول کریم ﷺ کے آرام وآسائش کا ہر طرح خیال رکھنے کے لیے اور خدمت گزاری کے لیے بھیجا تھا۔16ذوالحج شریف کو یہ قافلہ روانہ ہوا، روانگی کے وقت رسول اللہ ﷺ کے چچا صاحبان الوادع کہنے کے لیے آئے اور اہل قافلہ کو تاکید کی کہ حضور سرورِکائنات ﷺ کا ہرطرح خیال رکھیں۔ چند روز کی کٹھن مسافت طے کرنے کے بعد قافلہ شام کے شہر بُصریٰ پہنچا۔اس سفر تجارت میں کیا کچھ عجائبات و کرشمات وقوع ہوئے وہ کتب سیرت کا ایک اہم باب ہے جو کسی بھی اہل علم سے مخفی نہیں ۔اس تجارتی سفر میں اللہ تعالیٰ نے بے حد برکت دی اورنفع پہلے سے بھی دوگنا ہوا، چونکہ میسرہ دوران سفر قریب سے آپﷺ کے حُسن اخلاق، معصومانہ سیرت کا تجربہ اور معاملہ فہمی کا مشاہدہ کر چکا تھا اس لیے اس نے برملا اس کا اظہار کرتے ہوئے سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کوبتلایا کہ:’’ آپ ﷺ نہایت معاملہ فہم، تجربہ کار، خوش اخلاق، دیانت دار، ایمان دار، شریف النفس اورمدبرانہ شخصیت کے مالک ہیں۔‘‘ آپ ﷺ نے واپس پہنچ کر تجارتی معاملات کا عمدہ حساب پیش کیا، جس سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت زیادہ متاثر ہوئیں۔
آپ نے امام الانبیاء ﷺ کے ظاہری اور باطنی کمالات کو دیکھ کر ایک زیرک اور دُور اندیش خاتون کی طرح فیصلہ کیا کہ وہ آپ ﷺ سے عقدکریں گی اور خود ہی رسول اللہ ﷺ کی پیاری پھوپھی جان سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا(جو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بھابھی جان یعنی آپ کے بھائی عوام بن خویلد کی زوجہ تھیں)سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ ذاتی حالات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں۔پھراپنی ایک ہم رازاور باوفا سہیلی نفیسہ بنت منیہ کی معرفت نکاح کی درخواست پیش کی۔ آپ ﷺ نے آمادگی کا اظہار فرمایااوراپنے شفیق چچاؤں کو اِس فیصلے سے مطلع فرمایا تو انھوں نے بھی آپ کے اِس فیصلہ پر موافقت اور خوشی کا اظہار کیا۔دونوں اطراف کے بزرگوں کی منظوری کے بعد نکاح کی تاریخ مقرر ہوئی۔
مقررہ تاریخ پر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے آپ کے چچا جان جناب ابو طالب، امیر طیبہ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ ،(شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کے نزدیک سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ)شرفائے بنی ہاشم اور سردارانِ قبیلہ مضر پر مشتمل بارات سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچی۔ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی طرف سے اُن کے چچا عمرو بن اسد وکیل بنے اور رسول اللہ ﷺ کے چچا جان سیدنا ابوطالب نے حضور اکرم ﷺ کی طرف سے وکالت کا فریضہ انجام دیا۔
اِس مجلس میں پہلا بلیغانہ خطبہ خواجۂ بطحا جناب ابوطالب نے پڑھا جس میں نبی کریم ﷺ کے عمدہ اوصاف، جلالت شان اور عزت و مقام کا تذکرہ کیاام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اَسد کے مشورہ سے حق مہر مقرر ہوا۔
نکاح کی یہ پُر مسرت تقریب سعید سفر شام سے واپسی کے دو ماہ25دن بعد منعقد ہوئی اُس وقت رسول اللہ ﷺ کی ظاہر ی عمر مبارک 25سال اور سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہاکی عمر 40 سال تھی۔’’نساء حول الرسول ﷺ‘‘میںہے: ’’شادی کی اِس پُر سعید تقریب میں دیگر مہمانانِ ذی وقار کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی رضاعی والدہ ماجدہ سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بھی شریک ہوئیں۔ آپ جب اپنے قبیلے واپس جانے لگیں تو سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا نے انھیں چالیس بکریوں کا تحفہ دے کر رخصت کیا کیوں کہ انھوں نے اُن کے سرتاج امام الانبیاء ﷺ کو بچپن میں دودھ پلانے کی سعادت حاصل کی تھی۔‘‘
شادی کے بعدجلد ہی ملیکۃ العرب سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے آنگن ایک پھول کھلا، رسول اللہ ﷺ کے ہاں پہلے شہزادے کی ولادت ہوئی اُن کا نام ’قاسم‘ رکھا گیا،انہی کی وجہ آپ ﷺ کی کنیت’ابوالقاسم‘ ہے۔سیرت نگاروں کے مطابق ابھی انھوں نے چلنا ہی شروع کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت سے راہی ملک ِ بقا ہوگئے۔سیدنا قاسم علیہ السلام کے وصال باکمال کے بعد سعادت مند گھرانے میں ایک خوب صورت شہزادی کی آمد ہوئی جن کی وجہ سے گلشن رسالت ﷺ حسن وجمال،انس ومحبت سے بھر گیا،رسول کریم ﷺ نے اُن کا نام ’سیدہ زینب سلام اللہ علیہا‘ رکھا۔ ان دونوں کی ولادت اعلان نبوت سے پہلے ہوئی، اس کے بعدشہزادے سیدنا عبداللہ علیہ السلام کی ولادت ہوئی، صحیح قول کے مطابق انھیں طیب اور طاہر کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ کم سنی میں ہی اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ گئے ۔ پھر ان کے بعد مسلسل تین شہزادیاں ہوئیں جن کے نام سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم اورسیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہن اجمعین رکھے گئے۔
اللہ تعالیٰ کے اذن سے جب رسول کریم ﷺ نے اعلان ختم نبوت و رسالت فرمایا تو آپ ﷺ پر نہایت شدید حالات آئے تو اس کڑے وقت آپ کو جس طرح کی دانش مندانہ و ہمدردانہ تسلی کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و توفیق سے سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا ہی سے ملی۔پوری امت میں ںسب سے پہلے آپ نے رسول اللہ ﷺ کے سچے نبی ہونے کی تصدیق فرمائی اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز ادا فرمائی ۔آپ نے اپنی پوری دولت اور اپنے غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین پر نچاور کرکے آپ ﷺ کودین اسلام کی اشاعت کے مقدس مشن میں گھریلو معاشی افکار سے بے نیاز کر دیا۔
آپ تقریباً 25سال تک نبی کریم ﷺ کی جانثار، ا طاعت گزار اور وفا شعار زوجہ مبارکہ بن کر حیات رہیں اور بعثت کے دسویں سال اور ہجرت سے تین سال قبل 64 سال کی عمر پاکرماہ رمضان المبارک کی 10 تاریخ کو مکہ معظمہ میں وصال باکمال فرماگئیں۔اُس وقت نماز ِجنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا ،مقام حجون ( المعروف جنت المعلیٰ )میں آرام گاہ بنائی گئی ۔ رسول اللہ ﷺ بہ نفس نفیس قبر انور میں اُترے اور اپنے دست ِ مبارک سے اپنے سب سے بڑے غمگسار کو خالق ایزدی کے سپر دکیا۔
تحریر:مفتی محمد زمان سعید ی رضوی