• اہل بیت اطہار علیہم السلام

سیدنا امام حسن مجتبی علیہ السلام کے حکیمانہ اقوال


امیر المومنین سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
کے حکیمانہ فرامین 
 

 


ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’لوگوں کو حکمت اور وعظ ِ حسنہ کے ذریعے اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ‘‘(سورۃ النحل :125)ہمیشہ سے داعیانِ دین متین نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو مد نظر رکھ کر ’’ اللہ کے راستے کی طرف‘‘ بلانے کی سعی مقبول فرمائی ،ہمارے اسلاف کے جواہرپارے جو آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں یہ وہ دُرّ ِنایاب ہیں جو انسان کی اصلاحِ ظاہر وباطن کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتے ہیں ۔ آج ہم اُنھیں اپنی اصطلاح میں ’ حکیمانہ اقوال ‘ یا ’ اقوال ِ زریں ‘ کا نام دیتے ہیں ۔ اقوال ِ زریں کی اہمیت سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا، طویل وضخیم کتب کے مطالعہ سے کبھی کبھی انسانی زندگی میں وہ انقلابات نہیں پیدا ہو پاتے جیسا کہ اِن اقوال کو پڑھ کر یا سن کر پیدا ہوتے ہیں ۔ ذیل کی سُطور میں گل گلستان ِ رسالت ، امیر المؤمنین ، خلیفۃ المسلمین امام المسلمین سیدنا امام حسن مجتبیٰ ں کے بے پناہ علم ودانش سے استفادہ کرنے کی خاطر آپ کے ارشادات کا حسین گلدستہ قارئین کرام کی نذر ہے :
سید الاولیاء ‘سیدناداتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ آپ کو طریقت میں گہری نظر حاصل تھی ،اُس علم کے دقائق ولطائف بیان کرنے میں آپ کو ید ِ طولیٰ حاصل تھا ،اپنے وصیت نامے میں فرماتے ہیں :’’ علیکم بحفظ السرائر فان اللہ مطلع الضمائر‘‘اپنے اَسرار کی حفاظت کرو بے شک اللہ تعالیٰ دِلوں پر مطلع ہے ۔تم اپنے راز ہائے دروں کی حفاظت کرو کیوں کہ اللہ تعالیٰ دِلوں کی دنیا سے آگاہ ہے ‘‘۔(کشف المحجوب)
    حضرت حارث الاعور رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے اپنے صاحبزادے سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے مروت ( ومحبت عام کرنے والی چیزوں کے )متعلق پوچھا ۔آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے پوچھا:اے بیٹے ! (بتاؤ) راست روی (یعنی سچائی اور دیانتداری )کیا ہے ؟ حضرت امام حسن علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے والد محترم ! بھلائی کے ذریعے برائی کو ختم کرنا۔فرمایا: شرف( یعنی عزت وبلندی ٔ مرتبہ )کس چیز میں ہے ؟عرض کیا :رشتہ داروں اور قبیلہ والوں کے ساتھ بھلائی وتعاون کرنے میں ۔فرمایا :مروت کیا ہے ؟ عرض کیا : آدمی اپنے معاملات کی اصلاح ودرستی کرے اور پاکدامنی اختیار کرے ۔فرمایا:شفقت ومہربانی کس میںہے ؟عرض کیا : قناعت اختیار کرنے اور کسی کو حقیر وذلیل نہ جاننے میں ۔فرمایا :ملامت کیا ہے ؟عرض کیا : خود کو محفوظ رکھنا اور دوسرے کو ذلیل ورسوا کرنا ۔فرمایا :سخاوت کیا ہے ؟عرض کیا : تنگدستی اور خوشی حالی میں خرچ کرنا ۔فرمایا :بخل کیا ہے ؟ فرمایا: جو پاس موجود ہو اُسے باعث عزت سمجھنا اور جسے خرچ کردیا اُسے ضائع خیال کرنا ۔فرمایا : بھائی چارہ کیا ہے ؟عرض کیا : دوست پر جرأت مندی کا مظاہرہ کرنا اور دشمن سے بھاگنا ۔فرمایا :غنیمت کیا ہے ؟عرض کیا : تقویٰ وپرہیزگاری میں رغبت رکھنا اور دنیا اے بے رغبتی اختیار کرنا ہی خوشگوار غنیمت ہے ۔فرمایا: حِلم کیا ہے ؟ عرض کیا : غصہ پی جانا او ر نفس کو قابو میں رکھنا ۔فرمایا : تونگری کیا ہے ؟ عرض کیا:اللہ تعالیٰ نے جو مقدر میں لکھ دیا ہے نفس کا اُس پر راضی رہنا اگر چہ کم ہی کیوں نہ ہواور اَصل تونگری تو نفس کا غنی ہونا ہے ۔فرمایا : فقرکیا ہے ؟فرمایا : نفس کا ہر چیز کے معاملے میں حریص ہونا ۔فرمایا : بہادری کیا ہے ؟عرض کیا : سخت لڑائی کے وقت طاقت کا مظاہرہ کرنا اور طاقتوروں کے مقابلہ میںثابت قدم رہنا ۔فرمایا: ذلت کس چیز میں ہے ؟ عرض کیا : سچائی کا سامنا کرتے وقت گھبرا جانے میں ۔فرمایا : عاجزی وبے بسی کی علامت کیا ہے ؟عرض کیا :ڈاڑھی کے ساتھ کھیلنا اور گفتگو کے دوران کثرت سے تھوتھو کرنا ۔فرمایا : دِلیری کس میں ہے ؟ عرض کیا : ہم پلہ لوگوں کی موافقت کرنے میں ۔فرمایا : تکلیف ومشقت کیا ہے ؟عرض کیا : لایعنی فضول گفتگوکرنا ۔فرمایا : بزرگی کیا ہے ؟عرض کیا : نقصان کرنے والے کو کچھ عطا کرنا اور قصور وار کو معاف کردینا۔فرمایا : عقل کیا ہے ؟عرض کیا : حاصل شدہ کو یاد رکھنا ۔فرمایا : جہالت کیا ہے ؟ عرض کیا : دشمن کے سامنے بلند آواز سے گفتگو کرنا ۔فرمایا : رفعت وبلندی کس چیز میں ہے ؟عرض کیا : نیکی کرنے اور برائی چھوڑ دینے میں ۔فرمایا : احتیاط کس میں ہے ؟ عرض کیا : بردباری اختیار کرنے اور حاکموں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے میں ۔ فرمایا : بے وقوفی کیا ہے ؟ عرض کیا : کم ظرف لوگوں کی اتباع کرنا اور گمراہوں کی صحبت اختیار کرنا ۔فرمایا : غفلت کیا ہے ؟عرض کیا : بزرگی چھوڑ کر برائی کی پیروی کرنا ۔ فرمایا : محرومی کیاہے ؟عرض کیا: حصہ ملنے پر انکار کردینا ۔فرمایا سردار کون ہے ؟عرض کیا :جو اپنے مال کے مُعاملے میں بے فکر اور عزت کے مُعاملے میں لاپروا ہو اگر بُرا بھلا کہا جائے تو جواب نہ دے اور خاندان کے مُعاملہ میں غمگین وپریشان رہتا ہو۔
    پھر حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے فرمایا: اے بیٹے ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا : کہ جہالت سے بڑھ کر فقر ( محتاجی ) کوئی نہیں ۔عقل مندی سے بڑھ کرکوئی ( قیمتی ) مال ہے ۔عجب وخودی سے زیادہ وحشت زدہ کوئی تنہائی نہیں ۔ مشاورت سے بڑھ کر کوئی پشت پناہی نہیں ۔حسن تدبیر سے زیادہ کوئی عقلمندی نہیں ۔حسن اخلاق سے زیادہ کوئی خاندانی شرافت نہیں ۔ گناہوں سے بچے رہنے سے زیادہ کوئی تقوی نہیں ۔فکرمندی کی طرح کوئی عبادت نہیں ۔صبروحیا کی طرح کوئی ایمان نہیں ۔میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے فرمایا: جھوٹ باتوں کی آفت ہے ،علم کی آفت نسیان ہے ۔بے وقوفی حکم کی آفت ہے ۔محرومی عبادت کی آفت ہے ۔سرکشی شجاعت کی آفت ہے ۔احسان جتلانا سخاوت کی آفت ہے ۔
تکبر وغرور خوبصورتی کی آفت ہے ۔فخر حسب ونسب کی آفت ہے۔ (المعجم الکبیر لطبرانی ،کنزالعمال )
تحریر: مفتی محمد رمضان جامی