• اہل بیت اطہار علیہم السلام

سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا ( سیدنا امام حسن مجتبی علیہ السلام کی پڑپوتی)

سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی پڑپوتی ، نفیسۃ العلم والمعرفۃ
حضرت سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا 
مصر میں آپ کا مزارِ مبارک قبولیت دعا کے لیے معروف ومشہور ہے

تحقیق وترتیب : مفتی محمد رمضان جامی

تاریخ اسلام میں ایسی بے شمار ہستیاں گزری ہیں جنھوں نے زہد و ورع، تقویٰ و پاکیزگی، عبادت و ریاضت اور مخلوقِ خدا کی خدمت کے ذریعہ اللہ رب العزت کا قرب حاصل کیا، اور سینکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی ان ہستیوں پر تاریخ نازاں ہے اور ان کی سیرت انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اگر تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو مراتبِ ولایت پر فائز شخصیات میں اکثریت مردوں کی ہے، لیکن تاریخ میں بے شمار نام ان خواتین کے بھی ہیں کہ جنھوں نے اپنی عائلی زندگی کے فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ سلوک و تصوف اور طریقِ ولایت پر ایسے ایسے سنگِ میل رقم کیے جو اپنی مثال آپ ہیں۔ اس صف میں جہاں ازواج مطہرات، صحابیات، اہل بیت اطہار سلام اللہ علیہن اجمعین کی بہت سی عظیم المرتبت شہزادیاں جلوہ افروز ہیں وہاں گلستان رسالت کی گل سرسبد،خانوادہ نبوت کی نورچشم سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہاایسی عظیم المرتبت ہستی ہیں جن کے سیرت و کرداراور عالی ظرفی،اصاغرنوازی کے متعلق پڑھتے ہوئے قاری کا ہر ہر رونگٹا بعد شوق یہ نغمہ الاپتا ہے
 تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا 
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
 سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا علم وعرفان کاوہ درخشاں ستارہ ہے جن سے بیک وقت سلوک و تصوف اور علوم و فنون کا فیض جاری ہوا یہی وجہ ہے کہ تاریخِ اسلام میں کئی مشہورصوفیا اور معروف ائمہ کرام نے اپنے دامن کو ان کے فیوضات سے معطر کیا۔ آج بھی تاریخِ اسلام اس ہستی کو ’’نفیسۃ العلم والمعرفہ‘‘کے خطاب سے یاد کرتی ہے۔
نام و نسب
آپ کا اسمِ گرامی سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا بنت سید حسن الانور رضی اللہ عنہ ہے۔ سید حسن الانور سید زید رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور سیدنا امام حسن بن علی المرتضی سلام اللہ علیہما کے پوتے ہیں، اس لحاظ سے سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی پڑپوتی ہیں۔ (الدّرر النفیسۃ)
ولادت باسعادت اور ابتدائی زندگی
حضرت سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں 11 ربیع الاول 145ھ کو بروز بدھ حضرت حسن الانور رضی اللہ عنہ کے گھر پیدا ہوئیں۔ آپ کی عمر مبارک ابھی پانچ سال تھی جب آپ کے والد گرامی کو مدینہ منورہ کا امیر بنا دیا گیا اور آپ کے خاندان نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ آپ نے چھ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا اوراس کے ساتھ ساتھ فقہ مالکہ کے مدون،امام دار الہجرہ،حضرت امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث اور فقہ کا علم بھی حاصل کرتی رہیں۔ نیز مسجد نبوی میں ہونے والی دیگرعلمی و فقہی مجالس میں شرکت کر تیں اور ان علوم میں تبحرحاصل کیا۔ آپ کے والد گرامی کا معمول تھا کہ آپ مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کے بعد اپنی کم سن صاحبزادی سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ حاضری دلوانے کے لئے لے جاتے اور وہاں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کناں ہوتے: ’’یا رسول ا للہ! میں اپنی اس بیٹی نفیسہ سے راضی ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر آپ واپس پلٹ آتے۔ ایک روز تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن الانور رضی اللہ عنہ کو خواب میں شرفِ زیارت بخشا اور فرمایا:
(اے حسن! میں بھی تیری بیٹی نفیسہ سے راضی ہوں اور میرا رب بھی اس سے راضی ہے)۔ (الجواہر النفیسۃ: 5، اہل البیت: 53)
شادی اور اولاد مبارک
سیدنا امام جعفر الصادق علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت اسحاق المؤتمن رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن الانور رضی اللہ عنہ کے سامنے سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا تو انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت اسحاق المؤتمن رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ رسول کریم ﷺ کے روضہ انور پہ حاضرہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں عرض کناں ہوئے: ’’یا رسول اللہ ! میں نے یہ خواہش صرف اس لئے کی ہے کیونکہ سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا علم وتقویٰ، حیاء، خدمت خلق، زہد و ورع اور عبادت و ریاضت میں اپنی مثال آپ ہیں اور کلام الٰہی کی حافظہ اور مفسّرہ بھی ہیں۔‘‘ یہ عرض کرنے کے بعد آپ واپس لوٹ آئے۔ اگلی ہی رات تاجدار کائنات ﷺ نے حضرت حسن الانور رضی اللہ عنہ کو خواب میں شرف زیارت بخشا اور فرمایا: ’اے حسن! نفیسہ کی نسبت اسحاق المؤتمن سے کر دو۔‘‘(الجواہر النفیسۃ)
اور یوں آپ کا نکاح تقریبا ًسولہ سال کی عمرمیں بروز جمعہ 5 رجب 161ھ میں ہوا۔یوں آپ کو سیدنا امام جعفر صادق علیہ السلام کی بہو ہونے کا شرف حاصل ہوا، حضرت اسحاق المؤتمن رضی اللہ عنہ بھی اپنے وقت کے بہت بڑے محدّث تھے ،سیدناامام جعفرصادق علیہ السلام کے علم وروحانیت کے فیض امین تھے۔(مرشد الزوار: 161)
عبادت و ریاضت
سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کا قلب اطہر ذوق عبادت، محبت الٰہی، نور ایمان، صدق و یقیں سے معمور تھا۔ عبادت، علم و عمل، طلبِ معرفت، رضائِ حق اورمحبت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھے۔ آپ کی بھتیجی سیدہ زینب بنتِ سید یحییٰ فرماتی ہیں: ’’میری پھوپھی جان بہت پرہیزگار اور متّقی خاتون تھیں۔ میں چالیس سال آپ کی خدمت میں رہی ہوں اور اِس عرصے میں میں نے انہیں کبھی سوتے نہیں دیکھا۔ آپ تین دن میں فقط ایک بار کھانا تناول فرماتی تھیں۔‘‘آپ صائم الدہر یعنی ہمیشہ روزے سے رہتیں سوائے  عید ین کے ایام کے ۔آپ نے زندگی میں تیس مرتبہ حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا اور اکثر حج انھوں نے پیدل چل کر ادا کیے۔ جب آپ سے دریافت کیا گیا کے عالمِ ضعف میں بھی ایسی مشقت پر مداومت کی کیا وجہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا:میرے جد امجد فرمایا کرتے تھے کہ ’’مجھے شرم آتی ہے اگر میں اپنے رب کی بارگاہ میں حاضری کے لیے پیدل چل کے بھی نہ جا سکوں۔‘‘ بس میں انہی کی سنت پر عمل پیرا رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔
 سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی فرماتی ہیں کہ آپ پہ فکر آخرت اس قدر طاری تھا کہ آپ اکثر اخروی کامیابی کے لئے فکرمند رہتیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی قبر مبارک خود تیار فرمائی اور اس میں بے شمار مرتبہ ختم قرآن فرمایا۔ آپ قرآنِ مجید کی تلاوت کثرت سے کیا کرتیں اور اس معمول کو آپ نے تا دمِ آخر جاری رکھا۔ آپ نے کئی نمازیں اپنی قبر مبارک میں ادا کیں۔ 
آپ کوجدالانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے بہت قلبی تعلق تھا،سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کے بارے میںآپ کی بھتیجی فرما تی تھیں: سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا قرآن مجید کی حافظہ، مفسّرہ اور ایک عظیم شاعرہ بھی تھیں۔ ہمیشہ دوران تلاوت قرآن آپ رضی اللہ عنہا کی آنکھیں اشک بار رہتیں اور آپ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کیا کرتیں: میرے اللہ! میرے مالک! میرے لئے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زیارت آسان فرما، اس لئے کہ تو جانتا ہے کہ وہ ابو الانبیاء ہیں اور میرے جدِّ امجد سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھی جد ہیں۔‘‘(الدّرر النفیسۃ: 41)
سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا جب مصر کے لئے سفر پر روانہ ہوئیں تو راستہ میںسیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے مزارِ اقدس پر فلسطین میں حاضر ہوئیں۔ وہاں دیر تک سورۃ ابراہیم کی تلاوت کرنے کے بعد سیدناابراہیم علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کناں ہوئیں: ’’اے میرے جدِّ اعلیٰ! میں آپ کی بارگاہ میں آج جسم و روح کے ساتھ حاضر ہوئی ہوں جبکہ اس سے پہلے فقط میری روح آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتی تھی۔ آج مجھے اپنے دیداراورفیض  سے مشرف فرمائیں۔‘‘  حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام خواب میں تشریف لے آئے اور فرمایا:
’’اے میری بیٹی! اے نفیسہ! تجھے بشارت ہو کہ بے شک تو صالحات اور بارگاہِ اِلٰہی میں مؤدِب ہستیوں میں سے ہے۔ میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ سورۃ المزمل کوکثرت سے  پڑھا کرو۔‘‘
پھر سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’یا جدّ الاکبر! میری تمنا ہے کہ مجھے ا للہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہو اور وہ مجھ سے راضی ہو جائے، اس کے بعد میری کوئی تمنا نہیں۔‘‘ اس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ’’اے میری بیٹی! تجھے مبارک ہو کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے تیری دعا قبول کر لی اور وہ تجھ سے راضی ہو گیا۔ اور میں تجھے عالم ارواح میں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن نہیں بھلاؤں گا۔‘‘(اہل البیت: ص 54؛ السیدۃ نفیسۃ: 60 - 62)
مصر کی طرف ہجرت
جب عباسی خلیفہ منصور کا دور آیا تو اس نے بلا وجہ آپ کے والدِ گرامی کو قید کیا اور آپ کے خاندان کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ اپنے والدِ گرامی کے وصال کے بعد آپ نے اپنے شوہر حضرت اسحاق المؤتمن رضی اللہ عنہ اور بچوںقاسم اور ام کلثوم ( رحمۃ اللہ علیہما) کے ہمراہ رسول کریم ﷺ کی اجازت سے مصر کی جانب ہجرت فرمائی۔ بلاد شام سے ہوتی ہوئیں ہفتہ کے روز 26 رمضان المبارک 193ھ کو مصر پہنچیں۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک 48 سال تھی۔ آپ کی آمد سے قبل ہی سرزمینِ مصر پر آپ کی عظمت و ولایت،کشف وکرامات اور علم و معرفت کے چرچے ہو چکے تھے۔ اسی لئے جب آپ مصر پہنچیں تو اہل مصر نے آپ کا عظیم الشان استقبال کیا جو کہ اہل مصرکا اہل بیت اطہار علیہم السلام سے والہانہ محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔(الدّرر النفیسۃ: 43)
کرامات :
کرامت عربی زبان کا لفظ ھے جس کا لغوی معنی ہے عظمت وبزرگی ،جبکہ تصوف کی اصطلاح میں کرامت اس فعل کو کہا جاتا ہے جوعام انسانی فطرت کے خلاف ہو‘اہل علم نے اس کے لئے خرق عادت کا لفظ بھی استعمال کیا ہے ۔قرآن وسنت میں اولیائے کرام کی کرامات کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں،سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا اپنے دور کی باکرامت ولیہ کاملہ تھیں اور اہلِ حجاز و مصر ہمیشہ ان کی کرامات پر گواہ رہے۔ آپ رضی اللہ عنہا سے ایسی بے شمار کرامات ظاہر ہوئیں جن کا چرچا نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں میں بھی ہونے لگا۔ ایک جم غفیر حاجت روائی کی غرض سے آپ کی چوکھٹ پر موجود رہتا۔ ایک مرتبہ ایک یہودی عورت اپنی ٹانگوں سے مفلوج بیٹی کو آپ کی خدمت میں چھوڑ کر کسی کام سے چلی گئی۔ اس وقت سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا وضو فرما رہی تھیں۔ جب وضو والے پانی کے چند قطرے اس لڑکی کی مفلوج ٹانگوں پر گرے تو اس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ کچھ ہی دیر میں اس لڑکی کو محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگوں میں زندگی لوٹ آئی ہے اور وہ شفایاب ہوگئی۔ جب اس کی والدہ نے یہ منظر دیکھا تو آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور اسی واقعہ کی وجہ سے اس یہودی عورت کا پورا خاندان دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ جہاں سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کے جسمِ اطہر سے مس ہونے والے پانی کے قطروں نے مردہ ٹانگوں کو زندگی بخشی وہاں اس واقعہ کی شہرت نے سینکڑوں دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور بھی کیا۔
آپ رضی اللہ عنہا کے وسیلے سے ستر یہودی گھرانے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ مؤرخین نے آپ رضی اللہ عنہا کی 150 نمایاں کرامات کا ذکر کیا ہے جن کو شارح صحیح البخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب فرمایا ہے۔(الدّرر النفیسۃ: 89)، 
علمی مقام و مرتبہ
آپ رضی اللہ عنہا سے سلوک و تصوف اور علوم و فنون کا فیض بیک وقت جاری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امام محمد بن ادریس شافعی رضی اللہ عنہ اور حضرت ذو النون مصری رضی اللہ عنہ جیسی عظیم المرتبت ہستیاں آپ رضی اللہ عنہا سے اکتساب فیض کرتی رہیں۔ امام شافعی رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہا سے علم ا لحدیث و فقہ حاصل کرتے رہے۔ سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا ہر سال امام شافعی کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کیا کرتیں۔ امام شافعی کا معمول تھا کہ جب کبھی آپ علیل ہوتے تو سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں دعا کے لیے درخواست بھیجا کرتے اوراس سے پہلے کہ پیغام بر واپس لوٹتا، اللہ رب العزت آپ کو شفایاب فرما دیا کرتا۔ جب امام شافعی اپنی مرض الموت میں مبتلا تھے تو آپ نے اپنے معمول کے مطابق ایک شاگرد کو دعا کی غرض سے سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا۔ آپ نے اُس شاگرد کو اِس پیغام کے ساتھ واپس بھیج دیا:’’اللہ تعالیٰ کی ملاقات بہت خوب ہے اور اس کی طرف توجہ کرنا بہت نفع بخش ہے‘‘۔یہ پیغام سنتے ہی امام شافعی سمجھ گئے کہ ان کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔
اسی طرح حضرت ذو النون مصری رضی اللہ عنہ کا سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا سے تعلقِ ارادت بھی کافی قوی تھا اور آپ کا یہ فرمان تھا کہ اس زمانے میں سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر مستجاب الدعوات اور کوئی ہستی نہیں ہے۔
(الجواہر النفیسۃ، الدّرر النفیسۃ مِن مناقب ومآثر السیدۃ نفیسہ: 106 - 109)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیدہ نفیسہ بیک وقت عالم و فاضلہ اور ولیہ کاملہ تھیں اور دونوں میادین کے شہسوار آپ سے رشد و ہدایت اور اکتسابِ فیض کے لیے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے۔
 وصال مبارک
آپ رضی اللہ عنہا کے وصال کا وقت جب قریب آیا تو آپ روزے سے تھیں۔ طبیبوں نے آپ سے عرض کیاکہ روزہ افطار فرما لیجئے، اس پر سیدہ نے فرمایا: ’’تعجب ہے، مجھے تیس سال ہوگئے ہیں اپنے رب سے یہ دعا مانگتے ہوئے کہ مجھے روزے کی حالت میں موت دینا، اور آپ کہہ رہے ہیں کے میں روزہ افطار کر لوں!‘‘ اس کے بعد آپ نے یہ ا شعار پڑھے:
اصرفوا عنی طبیبی
ودعونی وحبیبی
اے میرے طبیب میرے پاس سے چلے جاؤ
اور مجھے اور میرے حبیب کو اکیلا چھوڑ دو
جسدِی راض بسقمی
وجفونی بتحیب
میرا جسم میری بیماری میں راضی ہے
اور میری پلکیں میرے آنسوؤں میں خوش ہیں
آپ کی بھتیجی فرماتی ہیں کے آپ بسترِمرگ پرسورۃ الانعام کی تلاوت فرما رہی تھیں۔ جب اس سورت کی آیت 127:’’انہی کے لیے ان کے رب کے حضور سلامتی کا گھر ہے اور وہی ان کا مولیٰ ہے ان اعمالِ (صالحہ) کے باعث جو وہ انجام دیا کرتے تھے‘‘پر پہنچیں تو آپ پر غشی طاری ہو۔ آپ نے شہادت کے کلمات ادا کئے اور داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ 15 رمضان المبارک 208ھ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ آپ کے وصال کے وقت آپ کی عمر مبارک 63 برس تھی۔(نور الابصار: 394)
اہلِ حجاز و مصر کے لئے آپ کا وصال ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ اس روز مصر کے ہر گھر سے آہ و بُکا کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ آپ کے شوہر  نے آپ کو مدینہ منورہ لے جانے کا ارادہ فرمایا تو اہل مصر مزید غم میں مبتلا ہوگئے اور انھوں نے درخواست کی کہ سیدہ کو ہم سے جدا مت کیجیے۔ اسی رات تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو خواب میں شرف زیارت بخشا اور فرمایا: ’’اے اسحاق! نفیسہ کو مصر میں دفن کردو۔‘‘ پھر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کو مصر میں ہی دفن کیا گیا۔ 
آج سوا بارہ سو سال گزرنے کے باوجود بھی سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کا مزارِ مقدس مرجع خلائق ہے۔ دنیا آج بھی آپ کے مزارِ اقدس پر فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے قاہرہ جاتی ہے۔ آج بھی سوا بارہ سو سال گزرنے کے باوجود آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے ۔دنیا بھر کے شاہ وگدا وہاں عاجزی اورنیازمندی سے حاضری دیکر عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔