• اہل بیت اطہار علیہم السلام

حسنین کریمین علیہما السلام کی محبت جزوِ ایمان

 حسنین کریمین علیہما السلام کی محبت ‘جزوِ ایمان
ساداتنا حسنین کریمین علیہما السلام سے محبت دراصل حضور اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے

 

 

 

راکب دوش ِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،امیر المؤمنین سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہجرت کے تیسرے سال15 رمضان المبارک مدینہ منورہ میں ہوئی، سیدنا جبریلِ امین علیہ السلام  جنت سے ایک خوبصورت کپڑے پر آپ ں کا نام لکھ کر تحفتاً سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لائے، پیدائش کے ساتویں دن آپ ں کا عقیقہ کیا گیا، بال منڈوائے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالوں کے وزن برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم فرمایا ۔
شہید ِ کربلا سیدنا امام حسین علیہ السلام کی ولادت مبارکہ ہجرت کے چوتھے سال چار یا پانچ شعبان المعظم مدینہ طیبہ میں ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپں کے کان میں اذان واقامت فرمائی، لعابِ دہن ڈال کی گھٹی دی، اور اسم گرامی’’حسین‘‘رکھا اورساتویں دن عقیقہ فرمایا۔ ساداتنا حسنین کریمین سلام اللہ علیہما کو’ شبر‘ و’ شبیر‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اس کا سبب بیان کرتے ہوئے سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ سیدنا ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبر و شبیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کے نام انھیں کے نام پر حسن و حسین رکھے۔‘‘ 
بہ روایت امام احمدوترمذی رحمۃ اللہ علیہما، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین سلام اللہ علیہما کے ہاتھوں کو پکڑ کر فرمایا:’’جس نے مجھ سے محبت رکھی، ان دونوں سے محبت رکھی ان دونوں کی ماں سے اور ان کے باپ سے محبت رکھی تو وہ روزِ قیامت میرے  ساتھ میرے درجہ میں ہوگا ۔‘‘
ذہبی اور ابن عساکر نے روایت کیا ،ایک دن سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور سیدنا امام حسین علیہ السلام کشتی لڑنے لگے، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرتِ حسن علیہ السلام کو فرمایا:’’اے حسن! حسین کو پکڑ لو۔‘‘ ام المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا:تو عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ! آپ بڑے کو کہتے ہیں کہ چھوٹے کو پکڑ لے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’جبریل امین بھی تو حسین  سے کہہ رہے ہیں کہ ’’حسن کو پکڑ لو۔‘‘
سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی اپنے شہزادگان سیدنا حسن و سیدنا حسین( سلام اللہ علیہما) کو کندھوں پر بٹھاتے، کبھی ان کی پیشانی اور گردن پر بوسے دیتے، کبھی منبر پر اس حال میں رونق افروز ہوتے کہ سیدنا امام حسن علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں ہوتے، کبھی سیدنا امام حسین علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں بیٹھ جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک میں اپنی انگلیاں داخل کر دیتے۔
سیدنا حسنین کریمین سلام اللہ علیہما سے غایت درجہ محبت سے ہمارے لیے کچھ اسباق ہیں، چند ذوقِ قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں:
۱۔   سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اقوال و افعال سے یہ درس دیا کہ بچوں کی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ان سے مشفقانہ اور مربیانہ رویہ اختیار کیا جائے، شفقت، رحمت و رافت اور محبت کے ہی اصول سے بچوں کی بہتر تربیت کی جاسکتی ہے، یہاں یہ پہلو بھی پیشِ نظر رہے کہ بچپن میں اولاد کی کامل توجہ والدین کی طرف ہوتی ہے، والدین کو چاہیے کہ اپنی مکمل توجہ اولاد پر رکھیں، اگر والدین بچپن میں اولاد کو نظر انداز کرتے ہیں تو پھر وہ خود اس خدمت سے محروم ہو جاتے ہیں جن کی بڑھاپے میں انہیں احتیاج ہوتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں گھر کی یہ اولین تربیت گاہ شدید ترین زوال کا شکار ہے کیونکہ والدین مصروفیات کے بہانے اولاد سے جان چھڑاتے ہیں اور یوں اولاد تربیت کی پہلی درسگاہ سے ہی محروم رہ جاتی ہے۔ سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس معاشرتی زوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:’’أن تلد الأمۃ ربتہا أو ربہا‘‘ یعنی وہ ماں جس کے قدموں تلے جنت تھی ایک وقت آئے گا وہ ایسی اولاد کو جنم دے گی جو اسے محکوم و غلام سمجھے گی، امت مسلمہ میں یہ تربیتی انحراف دن بدن بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے باپ و بیٹے، ماں و بیٹی کے مابین رشتے کے اسالیب بھی مختلف ہوتے جا رہے ہیں، اور اسی سے فکری و ثقافی و اجتماعی بگاڑ پھوٹ رہا ہے اگر ہم اس صورت سے نکلنا چاہتے ہیں تو تربیتی نظام کو پھر اسی اصول پر استوار کرنا ہوگا جس پر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا تھا ۔
۲۔  سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور سیدنا امام حسین علیہ السلام سے محبت کا ایک بنیادی سبب یہ بھی تھا کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نگاہ ِ نبوت سے وہ روحانی سلسلہ بھی دیکھ رہے تھے جو قیامت تک حسنین کریمین سلام اللہ علیہما کے ذریعے عالم اسلام کو منور کرنے والا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دیکھ رہے تھے کہ آنے والے زمانوں میں حسنی و حسینی سادات ایک ایسے شجر سایہء دار کی حیثیت اختیار کر لیں گے جس کی شاخیں اور برگ وبار پورے عالم اسلام پر پھیل جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ان اقطاب اربعہ کو دیکھ رہے تھے جنھوں نے مدرسہ احسان کو پوری دنیا میں پھیلانا تھا، آپ تسخیرِ ہند کرنے والے سادات و اشراف کو دیکھ رہے تھے گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! امام ابو الحسن الشاذلی، امام احمد الرفاعی، امام السید احمد البدوی، امام السید شیخ عبد القادر جیلانی، داتا علی ہجویری، خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کا مشاہدہ فرما چکے تھے!بقول بدیع الزماں سعید نورسی : ’’سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اورسیدنا امام حسین علیہ السلام سے بچپنے میں جس شفقت و محبت کا اظہار فرمایا اس کا تعلق اس فطری شفقت و محبت کے ساتھ نہیں جو صرف قرابت داری یا خونی رشتے کے احساس سے جنم لیتی ہے بلکہ اس کا سر چشمہ اس نورانی سلسلے کا مشاہدہ تھا جو نبوت کی عظیم الشان ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے والا تھا اور ان دونوں میں سے ہر ایک وارثانِ نبوت کی بہت بڑی جماعت کا بانی، نمائندہ اور قابلِ تقلید نمونہ بننے والا تھا ۔